جمعرات, اکتوبر 9, 2025
ہومنقطہ نظرایران میں مخالفینِ سفارت کاری نے حتمی طور پر بحث جیت لی

ایران میں مخالفینِ سفارت کاری نے حتمی طور پر بحث جیت لی
ا

سیموئیل گیڈس کا کہنا ہے کہ واشنگٹن کی بدعہدی اور یورپ کی اس کے ساتھ ملی بھگت نے ایران کے اُن دھڑوں کو مکمل طور پر درست ثابت کر دیا ہے جو مغرب کے ساتھ سفارتی عمل کے مخالف تھے۔ اس کے نتیجے میں ایرانی عوام کے سامنے یہ حقیقت واضح ہوگئی ہے کہ مغرب کے ساتھ مذاکرات محض دھوکے اور تسلط کے جال ہیں۔

سیموئیل گیڈس

امریکی دوغلے پن اور یورپی کمزوری نے ایران کو اس بات پر قائل کرنے کے لیے اس سے زیادہ کچھ نہیں کیا کہ وہ آئندہ کبھی مذاکرات نہ کرے۔

2015 میں برسوں کی طویل اور صبر آزما بات چیت کے بعد ایران کے اُس وقت کے صدر حسن روحانی نے جوہری معاہدے — "جامع مشترکہ ایکشن پلان” (JCPOA) — کو عوام اور جمہوری اسلامی ایران کے اداروں کے سامنے منظوری کے لیے پیش کیا۔ اصلاح پسندوں، معتدل قدامت پسندوں اور اصول پسندوں کے ایک وسیع اتحاد نے اس کی توثیق کو یقینی بنایا، جس کے تحت تہران نے مغربی پابندیوں میں نرمی کے بدلے اپنے جوہری پروگرام میں نمایاں حد تک کمی کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔ تاہم، اصول پسندوں کے اس دھڑے میں موجود کچھ نظریاتی سخت گیر عناصر نے ابتدا ہی سے اس معاہدے کی بھرپور مخالفت کی۔

یہ ’’نظام مخالف‘‘ اصول پسند، جو مغرب کے ساتھ کسی بھی قسم کے معاہدے یا رعایت کے سخت مخالف تھے، اُنہیں انقلاب کے رہبر کی حمایت نے مزید تقویت دی۔ اگرچہ آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے بالآخر روحانی حکومت کو JCPOA پر مذاکرات اور اس کی توثیق کی اجازت دے دی، تاہم انہوں نے کبھی اس حقیقت کو نہیں چھپایا کہ وہ مغربی ممالک، خصوصاً امریکہ، پر کسی بھی معاہدے کے باوجود اعتماد نہیں رکھتے۔

یقیناً نہ وہ خود اور نہ ہی ایران کی سیاسی جماعتوں میں موجود JCPOA کے مخالفین یہ توقع کر سکتے تھے کہ اُن کے شبہات اتنی جلدی درست ثابت ہو جائیں گے۔ معاہدے کے نفاذ کے تین سال بھی مکمل نہیں ہوئے تھے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یکطرفہ طور پر اپنے ملک کو اس معاہدے سے نکال لیا، اور غیر قانونی طور پر واشنگٹن کے 2015 سے قبل کے ’’زیادہ سے زیادہ دباؤ‘‘ والے پابندیوں کے نظام کو بحال اور مزید سخت کر دیا۔ یہ فیصلہ اُس وقت کیا گیا جب تہران کے کسی ایک وعدے کی بھی خلاف ورزی کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا تھا۔

یہ طویل، سست روی سے وقوع پذیر ہونے والا زوال — جو عالمی جوہری عدم پھیلاؤ کے نظام کے ایک اہم اور کبھی فعال ستون کو تباہ کر گیا — بالآخر گزشتہ ہفتے اپنے اختتام کو پہنچا۔ برطانیہ، فرانس اور جرمنی، جو معاہدے کے فریق رہے تھے لیکن امریکی غیر قانونی پابندیوں کی پیروی کر کے اس کی شرائط کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے، جانتے تھے کہ اکتوبر میں معاہدے کی مدت ختم ہونے والی ہے، جس کے ساتھ ایران پر سلامتی کونسل کی پابندیاں دوبارہ عائد کرنے کا اختیار بھی ختم ہو جانا تھا۔ چنانچہ 28 اگست کو ان تینوں یورپی ممالک نے حیران کن دوغلے پن کے مظاہرے کے طور پر ’’اسنیپ بیک‘‘ میکانزم کا سہارا لیا، جس کے تحت 2015 سے قبل کی تمام پابندیاں سلامتی کونسل کے مکمل اختیار کے ساتھ، صرف واشنگٹن کی طاقت کے زور پر نہیں بلکہ اقوامِ متحدہ کی سطح پر، دوبارہ نافذ ہو گئیں۔

یورپی ممالک نے اس اقدام کو ڈھٹائی سے ’’ایران کو مذاکرات کی میز پر واپس لانے‘‘ کی ایک چال کے طور پر پیش کیا۔ مگر یہ قدم اُس وقت اُٹھایا گیا جب چند ماہ قبل ہی جون میں ’’اسرائیل‘‘ نے اچانک ایران پر فضائی حملہ کیا تھا۔ یہ بلا اشتعال جارحیت اُس وقت کی گئی جب ایران ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات میں مصروف تھا — ایک ایسا عمل جسے خود امریکہ کی جانب سے تباہ کیا گیا اور جس نے اب موجودہ کشیدگی کو جنم دیا۔

امریکہ نے عملاً تسلیم کر لیا کہ یہ مذاکرات محض ایک فریب تھے۔ ٹرمپ نے بین الاقوامی سفارت کاری اور سلامتی کو تباہ کرنے کے اس سلسلے کو اُس وقت مکمل کیا جب اُس نے اپنے اسرائیلی اتحادی کے ساتھ، اُس کی 12 روزہ جنگ کے آخری لمحات میں، ایران کی تین اہم جوہری تنصیبات پر بمباری میں حصہ لیا۔

امریکہ نے اس کے فوراً بعد اسرائیلی حکومت پر جنگ بندی مسلط کر دی اور پھر حیرت انگیز طور پر تہران کو ہدایت دی کہ وہ اُن مذاکرات کو دوبارہ شروع کرے جنہیں خود واشنگٹن نے جعلی قرار دے دیا تھا۔

اب اقوام متحدہ کی پرانی پابندیاں، اور اُن کے بعد کے دس برسوں میں شامل تمام اضافی اقدامات، مکمل طور پر بحال ہو چکے ہیں۔ ایران نے چار دہائیوں سے زیادہ عرصہ ایسے معاشی گلا گھونٹنے والے حالات میں ترقی کی ہے اور آئندہ بھی کرے گا، لیکن اُن سیاسی دھڑوں کی ساکھ، جو مغرب کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے اور عالمی معیشت میں دوبارہ شمولیت کے حامی تھے — یعنی روحانی دور کے ٹیکنوکریٹس اور اصلاح پسند، جو اب صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان کی قیادت میں حکومت میں ہیں — راکھ میں بدل چکی ہے۔

ان کا دہائیوں پر محیط وہ منصوبہ، جس کے تحت مغرب کی ’’تشویشات‘‘ کو دور کر کے ایران کو عالمی معیشت میں دوبارہ ضم کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی، اب مکمل طور پر ناکام دکھائی دیتا ہے۔ اُن کے سیاسی مخالفین کی نظر میں مغرب کے ساتھ حسن نیت کے ساتھ معاملہ کرنے کی انہی کوششوں نے ایک ایسی قانون شکن سپر پاور کو موقع دیا جس کے نتیجے میں ایران پر اُس پیمانے کی جارحیت کی گئی جو 1980 میں صدام حسین کے حملے کے بعد کبھی نہیں دیکھی گئی تھی۔

صدر پزشکیان کی صدارت، جو آغاز ہی سے امریکہ کے حمایت یافتہ اسرائیلی اشتعال انگیزیوں سے کمزور ہو چکی ہے، اب بے سمت نظر آتی ہے۔ وہ سیاسی بنیاد، جس پر اُنہیں ووٹ دے کر اقتدار میں لایا گیا، اُن کے قدموں تلے سے نکل چکی ہے، اور اُن کی مسلسل سفارتی کوششیں بے نتیجہ ثابت ہوئی ہیں۔

اب شدید غیر یقینی ہے کہ صدر اپنے باقی تین سالہ دورِ اقتدار میں کیا لائحہ عمل اپنائیں گے — اُن کی دوبارہ انتخابی کامیابی کے امکانات تو ایک طرف۔ غالب امکان یہ ہے کہ وہ پابندیوں کے بدترین اثرات سے عوام کو بچانے کے لیے اندرونی اقدامات پر توجہ دیں گے۔ تاہم، انہوں نے اعلان کیا ہے کہ اسلامی جمہوریہ JCPOA کے خاتمے کے ردعمل میں جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے (NPT) سے علیحدگی اختیار نہیں کرے گی۔

پزشکیان نے اپنے لیے جو حدود مقرر کی ہیں، اُن کے اندر رہتے ہوئے یہ بات غیر واضح ہے کہ ایران کی مخصوص جوابی کارروائی کیا ہوگی۔ لیکن ایک بات طے ہے: چاہے وہ مغرب کی کھلی اشتعال انگیزیوں کا جواب اسی انداز میں نہ دیں، اُن کے یورپی و امریکی ’’سفارتی شراکت داروں‘‘ کے صریح دوغلے پن نے یہ یقینی بنا دیا ہے کہ اُن کے بعد آنے والا صدر کسی بھی طرح مغربی سفارت کاری کے اس فریب کو برداشت نہیں کرے گا اور نہ ہی اس کے دھوکے میں آئے گا۔

مقبول مضامین

مقبول مضامین