جمعرات, اکتوبر 9, 2025
ہومنقطہ نظرآسٹریلیا کے میڈیا پر صیہونی گرفت

آسٹریلیا کے میڈیا پر صیہونی گرفت
آ

کِٹ کلارنبرگ اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ کس طرح صیہونی لابیاں کئی دہائیوں کی منصوبہ بندی، اثر و رسوخ اور پروپیگنڈا دوروں کے ذریعے آسٹریلیا کے میڈیا کو اپنے زیرِ اثر لا چکی ہیں، تاکہ اسرائیلی بیانیہ کے ساتھ مکمل ہم آہنگی یقینی بنائی جا سکے۔

تحریر: کِٹ کلارنبرگ

15 جولائی کو نیو یارک ٹائمز نے ہولوکاسٹ اور نسل کشی کے مطالعات کے معروف ادارے براؤن یونیورسٹی کے پروفیسر عمر بارتوف کا ایک غیر معمولی مضمون شائع کیا۔ اس مضمون میں بارتوف نے باضابطہ طور پر "اسرائیل” پر غزہ میں نسل کشی کرنے اور "فلسطینی وجود کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کی کوشش” کا الزام عائد کیا۔
یہ وہی بارتوف ہیں جو ایک صیہونی اور اسرائیلی افواج کے سابق رکن رہ چکے ہیں اور نومبر 2023 میں اسی اخبار کے ایک اداریے میں انہوں نے پوری شدت سے اس الزام کی تردید کی تھی۔ عمومی طور پر نیو یارک ٹائمز جیسا امریکہ کا بڑا اخبار ہمیشہ تل ابیب کے جرائم کو مسخ، سفید اور مبہم انداز میں پیش کرتا رہا ہے۔

اخبار کے مدیران نے اپنے نمائندوں کو واضح ہدایت دی تھی کہ وہ "نسلی صفائی”، "قبضہ شدہ علاقہ”، "نسل کشی” اور حتیٰ کہ "فلسطین” جیسے "اشتعال انگیز الفاظ” کے استعمال سے بھی گریز کریں۔
اسرائیلی حکومت، فوج اور انٹیلی جنس ذرائع کی جانب سے اخبار کو فراہم کی گئی حماس کی مبینہ بربریت اور اجتماعی زیادتیوں سے متعلق کہانیاں بعد میں اخبار کے اپنے عملے کی تحقیق کے نتیجے میں جھوٹ ثابت ہوئیں، لیکن ان کی تردید شائع نہیں کی گئی۔
لہٰذا یہ بات کہ بارتوف نے اب تسلیم کیا کہ صیہونی ریاست نسل کشی کر رہی ہے، اور نیو یارک ٹائمز نے اسے یہ بات کہنے کا پلیٹ فارم فراہم کیا — کوئی معمولی واقعہ نہیں۔

یہ مغربی میڈیا کی مجموعی حالت کا مظہر ہے کہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت کا اعتراف بھی کسی ذریعے سے ہونا "قابلِ ذکر” تصور کیا جاتا ہے۔
اکتوبر 2023 میں "اسرائیل” کے غزہ پر ظالمانہ حملے کے آغاز سے ہی یہ بات کھل کر واضح ہوچکی تھی کہ صیہونی افواج کی اندھی تباہی مکمل طور پر نسل کشی کے منصوبے پر مبنی ہے۔
اپریل میں اقوام متحدہ نے بھی باضابطہ طور پر تل ابیب پر غزہ میں "نسلی نسل کشی کے اقدامات” کا الزام عائد کیا تھا، جو دانستہ طور پر اور شعوری منصوبہ بندی کے ساتھ "فلسطینیوں کو ایک گروہ کے طور پر جسمانی طور پر ختم کرنے کے لیے” کیے جا رہے ہیں۔

یہ نتیجہ، اور انسانی حقوق کی مغربی تنظیموں اور قانونی ماہرین کی جانب سے پیش کیے گئے اسی نوعیت کے فیصلے، کسی بڑے مغربی میڈیا ادارے کی توجہ حاصل نہ کر سکے۔
یہاں بنیادی سوال پیدا ہوتا ہے کہ مرکزی میڈیا اتنی طویل مدت تک — بلکہ فعال طور پر شریکِ جرم بن کر — کس طرح صیہونی ریاست کے غزہ میں جاری 21ویں صدی کے ہولوکاسٹ پر خاموش رہا، اور فلسطینی عوام کے خلاف "اسرائیل” کی تاریخی زیادتیوں، مظالم اور قتل و غارت کو نظرانداز کرتا آیا۔
اس سوال کا جواب تجربہ کار آسٹریلوی صحافی جان لیونز کی 2017 میں شائع ہونے والی خودنوشت بالکونی اوور یروشلم میں پوشیدہ ہے۔

اس کتاب میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے کہ کس طرح آسٹریلیا کی اسرائیلی لابی نے مقامی ایڈیٹروں اور صحافیوں کو اپنے اثر میں جکڑنے کے لیے منظم حکمت عملی اپنائی، تاکہ وہ تل ابیب کے مستقل پروپیگنڈا کار بن جائیں۔
یہ تفصیلات عمومی اہمیت کی حامل ہیں، کیونکہ جیسا کہ اس صحافی نے پہلے بھی دستاویزی انداز میں ثابت کیا ہے، بیرونی میڈیا تک رسائی صیہونی منصوبے کا ایک دیرپا اور تباہ کن ہتھیار رہی ہے، جس کے ذریعے قبضے، زمینوں کی چوری اور نسلی صفائی جیسے جرائم دہائیوں سے مغربی عوام کی نظروں سے چھپائے گئے۔
یہی حکمت عملی بلا شبہ دنیا کے دیگر حصوں میں بھی نافذ ہے۔

”سخت گیر رخ“

لیونز کے انکشافات اس لیے بھی قابلِ ذکر ہیں کہ وہ خود فلسطینیوں کو مکمل طور پر معصوم مظلوم نہیں سمجھتے۔
ان کی کتاب کے تعارفی صفحے میں فلسطینیوں اور صیہونیوں کو ایک "تباہ کن جنگ” کے برابر فریقوں کے طور پر پیش کیا گیا ہے، اور اس میں فخر سے کہا گیا ہے کہ لیونز نے "حماس کے عہدیداروں سے تل ابیب پر راکٹ حملوں کی وجوہات پر سوالات کیے۔”
کتاب کے مندرجات میں کہیں یہ تاثر نہیں ملتا کہ لیونز "اسرائیل” کے کسی نہ کسی شکل میں وجود کے حق پر سوال اٹھاتے ہیں۔

مزید یہ کہ بالکونی اوور یروشلم میں متعدد جذباتی مناظر درج ہیں جن میں مصنف نے "اسرائیل” کے دوروں، صیہونی ریاست کے پرانے اور نئے عہدیداروں سے ملاقاتوں، آسٹریلوی یہودیوں سے ذاتی تعلقات، اور یہودی شناخت پر اپنی تحقیقی سرگرمیوں کا تذکرہ کیا ہے۔
یہ پس منظر ان کے مشاہدات کو مزید معتبر بناتا ہے۔
کتاب کی اشاعت کے بعد "اسرائیل” لابی کے اندر اور باہر سے جو شدید ردعمل سامنے آیا، وہ بھی انتہائی معنی خیز ہے۔
یہ وہی عناصر تھے جنہوں نے ابتدا میں اس تجربہ کار صحافی کے ساتھ خوشگوار تعلقات استوار کرنے کی کوشش کی تھی۔

لیونز وضاحت کرتے ہیں کہ جب وہ 1990 کی دہائی کے اوائل میں سڈنی مارننگ ہیرالڈ کے نائب مدیر مقرر ہوئے، تو ان کا فون مقامی یہودی گروہوں کی ملاقاتوں کی درخواستوں سے مسلسل بجنے لگا۔ بعد میں انہیں معلوم ہوا کہ ’’جب کسی کے عہدے میں ’ڈپٹی‘ کا لفظ آ جائے یا ادارے میں ترقی کی امید ظاہر ہو تو آسٹریلیا کی ’انتہائی منظم اسرائیل نواز لابی‘ فوراً اسے اپنے ہدف میں شامل کر لیتی ہے۔‘‘ مقامی صہیونی تنظیموں کے تعلقاتِ عامہ کے کارکنان نے انہیں ایک سال تک مسلسل قائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ اسرائیل کے ’’تمام اخراجات برداشت شدہ‘‘ دورے کو قبول کر لیں۔

آخرکار لیونز نے یہ دعوت قبول کی، اور 1996 میں انہوں نے اپنا پہلا دورہ تل ابیب کا کیا، جسے میلبورن کی تنظیم آسٹریلیا/اسرائیل اینڈ جیوش افیئرز کونسل (AIJAC) نے مالی طور پر اسپانسر کیا تھا۔ انہوں نے مشاہدہ کیا کہ ’’یہ عمل اب تقریباً ایک رسمی روایت بن چکا ہے کہ آسٹریلیا کے کسی بھی بڑے میڈیا ادارے کے نائب مدیروں کو اسرائیل کے ’مطالعاتی دورے‘ کی پیشکش کی جاتی ہے۔‘‘ ایک سینئر AIJAC عہدیدار نے فخر سے انہیں بتایا کہ ’’گزشتہ پندرہ برسوں میں ہم کم از کم 600 آسٹریلوی سیاست دانوں، صحافیوں، سیاسی مشیروں، سینئر سرکاری اہلکاروں اور طلبہ رہنماؤں کو ان دوروں پر بھیج چکے ہیں۔‘‘

لیونز نے نتیجہ اخذ کیا کہ ’’میڈیا کے ابھرتے ہوئے منتظمین کو ’تعلیم دینے‘ کے ذریعے اسرائیلی لابی نے آسٹریلیا بھر میں ایسے مدیران تیار کر رکھے ہیں جو اسرائیلی-فلسطینی تنازع کو صہیونی ریاست کے بگڑے ہوئے زاویے سے ہی سمجھتے ہیں، اور مقامی واقعات کی رپورٹنگ اسی کے مطابق کرتے ہیں۔‘‘ وہ لکھتے ہیں، ’’میں بمشکل کسی آسٹریلوی اخباری ادارے کے مدیر کو جانتا ہوں جو ان دوروں پر نہ گیا ہو۔‘‘ لیونز اور دیگر سینئر صحافیوں کو تل ابیب پانچ روزہ دورے پر لے جایا گیا، جس میں ضیافتیں، بریفنگز، اور حتیٰ کہ ایک کیبوتز میں قیام شامل تھا۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’’اسرائیل پہنچ کر فوراً یہ احساس ہوا کہ ہم زمینی حقائق پر کتنی محدود آراء تک رسائی رکھتے ہیں۔‘‘ اس دورے کے منتظمین نے صرف ایک گھنٹے کے لیے فلسطینی اتھارٹی کا مؤقف سننے کا انتظام کیا، ’’لیکن اس کے علاوہ ہمیں ایک ہی نقطۂ نظر سننے کو ملا — اور وہ بھی سخت گیر صہیونی موقف۔‘‘ لیونز کو جلد ہی اندازہ ہو گیا کہ ’’اس پورے دورے کا مقصد اسرائیلی آبادکاریوں کے دفاع کے لیے دلیلیں فراہم کرنا تھا۔‘‘

’’ڈریسڈن جیسا منظر‘‘

ایک وسیع تر تناظر حاصل کرنے کے لیے لیونز نے اپنے میزبانوں سے کہا کہ وہ انہیں الخلیل (ہیبرون) بھی لے جائیں، جو مغربی کنارے کا وہ علاقہ ہے جہاں ’’اسرائیل‘‘ نے غیرقانونی قبضہ جما رکھا ہے۔ ان کے بقول، ’’ہیبرون میں آپ تنازعے کو اس کی عریاں حالت میں دیکھ سکتے ہیں، کیونکہ یہ واحد فلسطینی شہر ہے جہاں ایک اسرائیلی بستی فلسطینی آبادی کے بیچ میں واقع ہے؛ ورنہ عام طور پر آبادکاروں کی بستیاں فلسطینی علاقوں سے علیحدہ رکھی جاتی ہیں۔‘‘ اُس وقت ’’چند سو آبادکار دو لاکھ فلسطینیوں کے درمیان رہائش پذیر تھے۔‘‘

یہ آبادکار آج بھی صہیونی قابض فوج (ZOF) کے تحفظ میں ہیں، اور ان پر ’’فوج کے وہی قواعدِ عمل‘‘ لاگو ہوتے ہیں جو تل ابیب کے زیرقبضہ دیگر علاقوں میں ہیں۔ ہیبرون پہنچتے ہی لیونز نے محسوس کیا کہ ’’قبضے کی سفاکیت سب کے سامنے عیاں ہے۔‘‘ انہوں نے دیکھا کہ ’’کس طرح آبادکاروں اور فلسطینیوں کے درمیان جھڑپیں روزمرہ زندگی کے سب سے بنیادی درجے پر جاری ہیں،‘‘ جس سے ’’دیکھنے والوں کو فلسطینیوں کی زندگی کی حقیقت سمجھنا آسان ہو جاتا ہے۔‘‘

ہیبرون کی گلیاں عام طور پر سنسان رہتی ہیں، کیونکہ ’’فلسطینیوں کو کچھ سڑکوں پر گاڑی چلانے یا دیگر راستوں پر چلنے کی اجازت نہیں۔‘‘ برسوں بعد جب لیونز اپنے مدیر کو وہاں لے گئے، تو انہوں نے تبصرہ کیا، ’’یہ منظر ڈریسڈن پر بمباری کے بعد جیسا ہے۔‘‘ رات گئے پہنچنے پر دونوں نے ’’اسرائیلی فوج کی بھاری موجودگی‘‘ اور شہر کی سنسان فضا میں ’’ایک عجیب سا خوفناک سکوت‘‘ محسوس کیا۔ مدیر نے ایک صہیونی فوجی سے پوچھا جو بیت المقدس کی جانب جانے والے بند چوکی پر کھڑا تھا، ’’فلسطینی کہاں ہیں؟‘‘ فوجی نے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا، ’’وہ سب بستروں میں سو رہے ہیں!‘‘

لیونز نے دیکھا کہ ہیبرون کے فلسطینیوں نے اپنے بازاروں کی دکانوں پر ’’لوہے کے جال‘‘ لگا رکھے ہیں تاکہ اوپر کی منزلوں پر رہنے والے یہودی آبادکار جب ان پر اینٹیں، کرسیاں، گندے ڈائپر اور سڑے ہوئے مرغ پھینکیں تو وہ بچ سکیں۔ انہوں نے یہ بھی مشاہدہ کیا کہ اسرائیلی فوجی ’’بغیر کسی اطلاع کے فلسطینیوں کو شہر کے قدیم حصے میں رات بھر کے لیے بند کر دیتے ہیں، بڑے فولادی گیٹوں کے پیچھے جو پنجروں جیسے دکھائی دیتے ہیں۔‘‘ اس کے بعد سے صورتحال مزید بگڑ چکی ہے، کیونکہ غیرقانونی آبادکاریاں تیزی سے پھیلتی جا رہی ہیں۔

لیونز کا مغربی کنارے کے بارے میں مشاہدہ نہایت واضح ہے:
’’اگر دنیا قبضے کو قریب سے دیکھ سکے تو کل ہی اس کے خاتمے کا مطالبہ کرے۔ اسرائیل کا فلسطینیوں کے ساتھ برتاؤ مغرب میں کسی طور قابلِ قبول نہ ہو اگر اس کی مکمل تفصیلات سامنے آئیں۔ اسرائیل صرف اس لیے بچ رہا ہے کہ اس کے پاس دنیا کی سب سے مؤثر پروپیگنڈا مشینری اور اپنی ڈائسپورا برادریوں کی بے پناہ حمایت موجود ہے۔ فوجی قبضے بدصورت دکھائی دیتے ہیں، کیونکہ وہ واقعی بدصورت ہوتے ہیں۔ جب تک اسرائیل کسی اور قوم پر تسلط برقرار رکھے گا، اس کی شہرت خون بہاتی رہے گی۔‘‘

صہیونی اثر کی حقیقت بے نقاب

ایسے خیالات ان بے شمار آسٹریلوی اہلِ رائے میں شاذونادر ہی دیکھنے کو ملتے ہیں جنہیں صہیونی لابی کی مالی معاونت سے اسرائیل کے ’’دوروں‘‘ پر لے جایا گیا۔ جیسا کہ لیونز لکھتے ہیں، ’’سال در سال، صحافیوں، مدیران، ماہرینِ تعلیم، طلبہ رہنماؤں اور مزدور یونین کے عہدیداروں کی لہریں تل ابیب پہنچائی جاتی رہیں تاکہ انہیں مغربی کنارے میں اسرائیلی پالیسیوں کے دفاع کے لیے ایک ہی محدود گروہ کی وہی پرانی باتیں سنائی جائیں۔‘‘ ان میں سے بہت کم لوگوں نے لیونز کی طرح خود مغربی کنارے کا دورہ کیا تاکہ اپنی آنکھوں سے اس المیہ کو دیکھ سکیں۔

تاہم لیونز کا نقطۂ نظر مکمل مایوسی پر مبنی نہیں تھا۔ ان کے مطابق، ’’اسرائیلی لابی کے پروپیگنڈا حربے اگرچہ قبضے کے ابتدائی چند عشروں تک کارگر رہے، لیکن اب تقریباً ہر واقعہ، جس میں کوئی اسرائیلی فوجی کسی فلسطینی کے ساتھ پیش آتا ہے، موبائل فون پر فلم بند ہو جاتا ہے،‘‘ جس کے نتیجے میں صہیونی افواج کی روزمرہ بربریت دنیا کے ناظرین کے سامنے بے نقاب ہو رہی ہے۔

آج کے دور میں، غزہ میں جاری نسل کُشی پوری دنیا میں براہِ راست نشر ہو رہی ہے، نہ صرف ان نڈر فلسطینی صحافیوں کے ذریعے جو اپنی جرات کی قیمت اپنی جانوں سے ادا کر رہے ہیں، بلکہ ان اسرائیلی عسکریت پسندوں کے ہاتھوں بھی جو اپنے ہی بھیانک جرائم کی ویڈیوز فخر سے بناتے ہیں۔

ان لرزہ خیز مناظر نے دنیا بھر میں اسرائیل کے بارے میں عوامی تاثر پر تباہ کن اور ناقابلِ واپسی اثر ڈالا ہے۔ رائے عامہ کے جائزوں سے مسلسل ظاہر ہوتا ہے کہ مغرب میں، حتیٰ کہ ان چند ممالک میں بھی جو 7 اکتوبر کے بعد تل ابیب کے لیے ہمدردی رکھتے تھے، شہریوں کی بھاری اکثریت اسرائیل کے بارے میں نہایت منفی رائے رکھتی ہے۔

اس صہیونی ریاست اور اس کے نسل کُشانہ اقدامات کی حمایت اب ناقابلِ دفاع بنتی جا رہی ہے، کیونکہ یہ بھیانک حقیقت ہر گزرتے دن کے ساتھ دنیا کے سامنے زیادہ نمایاں ہو رہی ہے۔ اس صورتحال کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ہمیں اس بیداری کے مقام تک پہنچنے کے لیے بے شمار معصوم فلسطینیوں کی جانیں گنوانا پڑیں۔

مقبول مضامین

مقبول مضامین