جمعرات, اکتوبر 9, 2025
ہومنقطہ نظرخود پسند سامراجیت اور اس کیخلاف جدوجہد: مزاحمت کا کردار

خود پسند سامراجیت اور اس کیخلاف جدوجہد: مزاحمت کا کردار
خ

الیگزینڈر ٹوبولٹسف

الیگزینڈر ٹوبولٹسف اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ قدیم ادوار میں خود پسند حکمرانوں کے بارے میں سیکھے گئے اسباق آج کی مغربی سامراجیت پر کس طرح منطبق ہوتے ہیں۔ ان کے مطابق امریکا۔اسرائیل کی جارحیت کا سب سے مضبوط مقابلہ مغربی ایشیا میں پائی جانے والی ثابت قدم مزاحمت کے ذریعے کیا جا رہا ہے۔

قدیم زمانوں میں لکھی گئی بعض تحریریں اپنی معنویت کے اعتبار سے حیران کن طور پر آج کے دور سے مطابقت رکھتی ہیں۔ مثال کے طور پر یونانی فلسفی پلوتارک (Plutarch) کی تصنیف کردہ سوانح عمری ’’ڈی میٹریئس پولی اورسیٹس‘‘ سیاسی نفسیات کے زاویے سے نہایت دلچسپ ہے۔

ڈی میٹریئس پولی اورسیٹس اپنی خود پسندی اور حد سے بڑھی ہوئی خود ستائشی کے لیے مشہور تھا۔ یہ بات نہ صرف پلوتارک بلکہ یونانی مورخ ڈیودورس سیکیولس نے بھی لکھی ہے۔ جدید نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو ڈی میٹریئس کو ایک ’’سیاسی خود پسند‘‘ (Political Narcissist) کہا جا سکتا ہے۔ اس کی ایک نمایاں مثال ایتھنز کے ساتھ اس کا برتاؤ ہے۔ جب اس نے ایتھنز پر قبضہ کیا تو وہاں کے باشندوں نے اسے غیر معمولی اعزازات دیے، اس کے مجسمے نصب کیے، اسے لامحدود اختیارات دیے، سال کے ایک مہینے کا نام اس کے نام پر رکھا، اور اشرافیہ اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر تعریف و تمجید کرنے لگی۔ ڈی میٹریئس کو مرکزِ توجہ بننے میں خوشی محسوس ہوتی تھی۔ مگر قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا — جو اس امر کی علامت تھی کہ خود پسندی پر مبنی اقتدار کس قدر ناپائیدار ہوتا ہے۔

جنگِ اِپسس (Ipsus) میں شکست کے بعد جب ڈی میٹریئس نے پسپائی اختیار کر کے ایتھنز واپس آنے کی کوشش کی تو حالات بدل چکے تھے۔ سکندر اعظم کے جانشین جنرلز — دیادوخی — نے ڈی میٹریئس اور اس کے والد اینٹی گونس کو شکست دی، جس میں اینٹی گونس مارا گیا۔ شکست کے بعد جب ڈی میٹریئس ایتھنز لوٹا تو ایتھینیوں نے اسے دوبارہ شہر میں داخل ہونے سے انکار کر دیا، یوں تمام سابقہ اعزازات واپس لے لیے گئے۔ مشکل وقت میں بہت کم لوگ اس کے مددگار بنے، جس کی بڑی وجہ اس کا خود پسندانہ اور شان و شوکت پر مبنی طرزِ حکمرانی تھا۔

اپنی سیاسی سرگرمیوں میں ڈی میٹریئس نے بظاہر متضاد خصوصیات کو یکجا کیا — سخاوت اور ظلم، ایمانداری اور فریب — لیکن اکثر فیصلوں میں غلطیاں کیں اور اہم جنگیں ہارا، اگرچہ اس میں شکست کے بعد دوبارہ طاقت حاصل کرنے کی غیر معمولی صلاحیت تھی۔ تاہم، اس کے مزاج میں خود پسندی ایک مستقل عنصر رہی۔ اس کے القابات، خطابوں اور تعریفی تمجید سے لطف اندوز ہونے کا رجحان اس کے کردار کا لازمی جزو تھا۔ پلوتارک نے اسی مثال سے خود پسند حکمرانی کے اس طرز پر تنقید کی تھی جو محض مصنوعی اعزازات اور جھوٹی عظمت پر مبنی ہو۔

یہاں جدید زمانے کی مثال کیسے نہ یاد آئے — ڈونلڈ ٹرمپ کی صورت میں سیاسی خود پسندی کی علامت! اس کی شہرت پسندی، خود ستائشی، اور حد سے زیادہ بڑھک بازی… اگرچہ اس میں یونانی تراژڈی جیسی کوئی سنجیدہ عظمت نہیں، بلکہ یہ خود پسندی ایک مضحکہ خیز تمسخر بن کر سامنے آتی ہے — ایک شخصی تھیٹر، ایک مسخرہ بازی۔ لیکن میرے نزدیک یہ پورے امریکی بالادست سیاسی طبقے کا عکس ہے۔

امریکہ میں ریپبلکن اور ڈیموکریٹک جماعتیں باری باری اقتدار میں آتی ہیں، صدور کے نام بدلتے ہیں — بش، اوباما، بائیڈن، ٹرمپ — لیکن اصل حقیقت نہیں بدلتی۔ امریکی سیاسی اشرافیہ کی ذہنیت کی بنیاد وہی ’’بد نیت خود پسندی‘‘ اور اپنے ’’غیر معمولی ہونے‘‘ کا جنون ہے۔ یہی احساسِ برتری امریکی حکمران طبقے کے فکری تصورِ دنیا کا محور بن چکا ہے۔

تاریخ گواہ ہے کہ امریکا نے اپنی بنیاد ہی سے نوآبادیاتی توسیع کا سلسلہ شروع کیا۔ مقامی امریکیوں کے قتل عام سے لے کر میکسیکو (1846-1848)، ہیٹی، ساموآ اور فلپائن پر حملوں تک، انیسویں صدی میں پورے مغربی نصف کرۂ ارض میں تباہی مچائی — اور اس سب کو ’’مونرو ڈاکٹرائن‘‘ کے نام پر جواز دیا گیا۔ اسی دوران ’’مینفسٹ ڈیسٹنی‘‘ (Manifest Destiny) کا نظریہ ابھرا، جس کا مقصد امریکا کی بالادستی کو لاطینی امریکا اور بحرالکاہل تک پھیلانا تھا۔

نوآبادیات، اور بیسویں صدی سے ’’نومستعمرانہ نظام‘‘، امریکی سیاسی اشرافیہ کے فکری ڈھانچے کی بنیاد بن گئے۔ جدید امریکی پالیسی دراصل ان مداخلتوں کی تاریخ ہے جو وسائل، خطوں اور تجارتی راستوں پر قبضے کے لیے کی گئیں۔ دوسری اقوام کے ساتھ استعماری تکبر، اور دنیا کو ’’شہرِ روشنی‘‘ (City on a Hill) کے زیرِ سایہ رکھنے کا خواب، امریکی بالادستی کے ذہنی ڈھانچے میں رچا بسا ہے۔

اسی سامراجی ذہنیت سے امریکی سیاسی طبقے کی خود پسندی، خود فریبی، اور اپنی ’’غیر معمولی‘‘ حیثیت کا زعم جنم لیتا ہے۔ عیش و عشرت کی طلب، غیر ممالک کے خلاف جارحیت، اور مسلسل خود ستائش — یہ سب گزشتہ چند دہائیوں کے امریکی قیادت کی پہچان بن چکے ہیں۔

امریکا میں سیاسی و مالیاتی خاندانوں اور اشرافی خاندانوں نے جنم لیا ہے جو قرونِ وسطیٰ کی جاگیردارانہ ساخت سے مشابہ ہیں۔ امریکا کی عالمی بالادستی کی ہوس اور خود کو ’’دنیا کا سردار‘‘ ظاہر کرنے کی کوشش دراصل اسی جاگیردارانہ نظام کا مبالغہ آمیز عکس ہے جو ’’سوزرنٹی‘‘ اور ’’وسالٹی‘‘ کے اصولوں پر قائم تھا۔

اگر امریکی سیاست کی پرشکوہ سطحی نمود و نمائش، ’’جمہوریت‘‘ اور ’’آزادی‘‘ کی لفاظی، انتخابی رسوائیاں اور معلوماتی انکشافات کو ہٹا کر گہرائی میں جھانکا جائے تو تصویر کچھ یوں بنتی ہے: جس طرح انیسویں صدی میں امریکی نوآبادیاتی آکٹوپس (Octopus) نے اپنی شاخیں پوری دنیا میں پھیلائیں، آج بھی یہی آکٹوپس فوجی اڈوں، کارپوریشنوں اور انٹیلی جنس مراکز کے ذریعے پوری دنیا کو جکڑے ہوئے ہے۔ اس ہولناک ساخت کے سَر پر ایک خود پسند اشرافیہ بیٹھی ہے جو دیگر قوموں کو حقِ خودمختاری سے محروم سمجھتی ہے۔

امریکی سامراجی آکٹوپس اپنی شاخیں نئی سمتوں میں پھیلا رہا ہے — نایاب معدنی وسائل سے لے کر جنوبی قفقاز کے تجارتی راہداریوں تک۔ مغربی نوآبادیاتی طاقتوں کی سرگرمیاں دن بہ دن زیادہ جارحانہ ہوتی جا رہی ہیں۔ جیسے جیسے دنیا تیزی سے بدل رہی ہے اور پرانا عالمی نظام بکھر رہا ہے، امریکا اور اس کے سرمایہ دارانہ حلقے اپنی اجارہ داری کو بچانے کے لیے تاریخ کے بہاؤ کو روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مگر تاریخ کا چکر ناقابلِ مزاحمت ہے۔ ماضی کی تمام سلطنتیں، بشمول نوآبادیاتی سلطنتوں کے، آخرکار انہدام کا شکار ہوئیں — اور امریکی نو سامراجیت کا انجام بھی یہی مقدر رکھتا ہے۔

ان حالات میں غزہ، لبنان اور یمن کی مزاحمت حقیقی رکاوٹ بن کر ابھری ہے جو خودمختار اقوام کو امریکا۔اسرائیل جارحیت سے محفوظ رکھتی ہے۔ یہی مزاحمت ہے جو بہادری اور قربانی کی تاریخی مثالیں پیش کر رہی ہے۔ مزاحمت دراصل انصاف کی قوتوں کا علمبردار ہے جو قومی آزادی کی جنگ سامراجی تباہ کاریوں کے خلاف لڑ رہی ہے۔

میں خاص طور پر فلسطین، لبنان، یمن اور ایران کے عوام کے کردار کو اجاگر کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے ایک زیادہ منصفانہ اور کثیرالقطبی دنیا کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کیا اور اپنی خودمختاری کا دفاع کیا۔ غزہ میں فلسطینیوں کی ثابت قدم جدوجہد اور لبنان میں حزب اللہ کے مجاہدین کی شجاعت دنیا بھر کے آزاد انسانوں کے لیے تحریکِ حریت کا سرچشمہ ہے۔ کٹھن حالات اور دشمن کی بمباری کے باوجود مزاحمت کا تسلسل مغربی ایشیا کو امریکا۔اسرائیل کے قبضے سے بچائے ہوئے ہے۔

مزاحمت ایک شعلہ ہے جو غزہ اور بیروت سے لے کر تہران اور صنعاء تک کروڑوں دلوں میں دہک رہا ہے — انصاف، آزادی اور خودمختاری کی جدوجہد کا عزم۔ دشمن قوتیں اسے بجھانے کی کوشش کر رہی ہیں، لیکن یہ آگ بجھنے والی نہیں — یہ ابدی ہے۔ مغربی سامراجیوں اور صیہونیوں کی تمام سازشیں آخرکار ناکامی سے دوچار ہوں گی۔

یہ ایک فیصلہ کن دور ہے — آنے والی نسلیں اس کے تاریخی معنی و نتائج کا تجزیہ کریں گی۔ یہ وہ زمانہ ہے جب عالمی اقتصادی و سیاسی نظام میں زلزلہ نما تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ خود پسند، لالچی مغربی سامراجیت اور اس کے حواری جب اپنی یک قطبی آمریت کو برقرار رکھنے کی کوشش میں لگے ہیں، تو مزاحمت اس بدعنوان نو سامراجی نظام کے خلاف جدوجہد کا ناگزیر اور بنیادی عنصر بن چکی ہے۔

فی الوقت ہم دیکھ رہے ہیں کہ امریکی سامراجیت اپنی توسیع پسندانہ منصوبہ بندی کو آگے بڑھانے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ اس نظامی بحران کی انتہا کو مؤخر کیا جا سکے جس میں وہ خود تیزی سے ڈوب رہی ہے۔ ٹرمپ غیر ممالک پر بھاری محصولات عائد کر رہا ہے، تجارتی جنگیں چھیڑ رہا ہے، اور ساتھ ہی جنوبی قفقاز جیسے اہم تجارتی راہداریوں پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

اسی کے ساتھ، امریکا مغربی ایشیا میں عدم استحکام پیدا کر رہا ہے — صیہونی قابض حکومت کی سرپرستی کر کے جو فلسطین اور شام کے علاقوں پر قابض ہے۔ امریکی سامراج کی حکمتِ عملی کا مقصد خطے کے قدرتی وسائل اور تجارتی راستوں پر براہِ راست یا بالواسطہ قبضہ حاصل کرنا ہے۔ یہی سرگرمیاں وہ جنوب مشرقی ایشیا اور لاطینی امریکا میں بھی جاری رکھے ہوئے ہے، تاکہ چین کے اثر و رسوخ کا مقابلہ کیا جا سکے۔

ایک بار پھر، اس عالمی معرکے میں مزاحمت کا کردار فیصلہ کن ہے۔ فلسطینی تنظیموں کے مجاہدین، لبنان میں حزب اللہ، اور یمن میں انصاراللہ کے جوان اپنی قوموں اور مظلوموں کے دفاع میں صفِ اول میں ہیں۔ ان کی شجاعت نے صیہونی ریاست اور اس کے مغربی سرپرستوں کے سازشی منصوبوں کو ناکام بنایا ہے۔

شام کی مثال ہی لے لیجیے۔ یہ قدیم تہذیب اور ثقافت کا گہوارہ ملک آج خانہ جنگی میں مبتلا ہے۔ اس کا کچھ علاقہ صیہونیوں کے قبضے میں ہے، اور فرقہ وارانہ و نسلی اقلیتوں، خصوصاً علویوں کے خلاف وحشیانہ حملے جاری ہیں۔ ریاست کی یہ ٹکڑوں میں بٹی ہوئی تصویر امریکی و اسرائیلی مداخلت کی پیدا کردہ ہے۔

ان حقائق کی روشنی میں یہ کہنا بجا ہے کہ مزاحمت کو مکمل اخلاقی حق حاصل ہے کہ وہ امریکی۔اسرائیلی جارحیت کے خلاف مسلح دفاع کرے۔ مزاحمت کے ہتھیار دراصل پوری قوموں کی سلامتی کے محافظ ہیں۔

مقبول مضامین

مقبول مضامین