ہانگ کانگ (مشرق نامہ) – پرنسٹن کے ایک ایٹمی طبیعیات دان، ناسا کے خلائی مینوفیکچرنگ منصوبے میں شامل ایک مکینیکل انجینئر، امریکی نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ کے نیورو بایولوجسٹ، نامور ریاضی دان اور نصف درجن سے زائد مصنوعی ذہانت کے ماہرین — یہ سب ان ناموں میں شامل ہیں جو امریکہ چھوڑ کر چین میں شامل ہو چکے ہیں۔
سی این این کی گنتی کے مطابق، گزشتہ سال کے آغاز سے اب تک کم از کم 85 ابھرتے اور نمایاں سائنسدان امریکہ سے چین کی تحقیقی اداروں میں مستقل طور پر شامل ہو چکے ہیں، جن میں سے نصف سے زیادہ صرف 2025 میں منتقل ہوئے۔ ماہرین کے مطابق یہ رجحان مزید بڑھے گا کیونکہ وائٹ ہاؤس تحقیقی بجٹ میں کٹوتیاں کر رہا ہے اور غیر ملکی صلاحیت پر کڑی نگرانی بڑھا رہا ہے، جبکہ بیجنگ ملکی جدت میں سرمایہ کاری میں اضافہ کر رہا ہے۔
یہ رجحان ایک "ریورس برین ڈرین” کا حصہ ہے جو اس سوال کو جنم دیتا ہے کہ آیا امریکہ طویل مدتی طور پر اعلیٰ درجے کے غیر ملکی سائنسدانوں کو متوجہ اور برقرار رکھ سکے گا یا نہیں — ایک ایسا عنصر جس نے دوسری جنگ عظیم کے بعد سے سائنس اور ٹیکنالوجی میں اس کی بلاشرکت غیرے عالمی برتری کو قائم رکھا۔
یہ مقابلہ واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان مستقبل کی صنعتوں پر غلبے کی دوڑ کو متاثر کر سکتا ہے، جن میں مصنوعی ذہانت، کوانٹم کمپیوٹنگ، سیمی کنڈکٹرز، بایوٹیک اور ذہین فوجی ہتھیار شامل ہیں۔
چین کی حکومت کئی سالوں سے دنیا بھر کے باصلاحیت سائنسدانوں کو متوجہ کرنے کے طریقے تلاش کر رہی ہے، خاص طور پر وہ ہزاروں چینی محققین جو اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکہ گئے اور وہاں سائنس و ٹیکنالوجی میں قائدانہ کردار ادا کرنے لگے۔ یہ مقصد اب اس وقت اور زیادہ اہم ہو گیا ہے جب امریکہ چین پر سخت ٹیکنالوجی کنٹرولز برقرار رکھے ہوئے ہے اور چینی صدر شی جن پنگ جدت کو اقتصادی سلامتی کا واحد راستہ سمجھتے ہیں۔
اب، جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ وفاقی تحقیقی بجٹ میں بڑے پیمانے پر کٹوتیوں، ریسرچ پر سخت حکومتی نگرانی، ایچ-1 بی ویزا کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافے اور یونیورسٹیوں پر وفاقی فنڈز کے ذریعے دباؤ ڈال رہی ہے، تو چین کے لیے یہ موقع مزید تقویت پا رہا ہے۔
چینی جامعات امریکہ میں بدلتی پالیسیوں کو ’’ٹرمپ کا تحفہ‘‘ قرار دے رہی ہیں، جیسا کہ پرنسٹن یونیورسٹی کے سوشیالوجی پروفیسر یو شی نے بتایا، جنہوں نے اس سال چینی جامعات کا دورہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ آپ چین میں نئی اور بہتر تحقیقی اور تربیتی اسکیموں کی بھرمار دیکھیں گے۔
چین میں ٹیکنالوجی ماہرین بھرتی کرنے والے ہیڈ ہنٹرز کا کہنا ہے کہ امریکی پالیسیوں سے حکومتی فنڈنگ پروگراموں میں درخواستیں بڑھنے کا امکان ہے، خاص طور پر سیمی کنڈکٹرز کے شعبے میں۔
کانگریس اگرچہ اگلے مالی سال میں مجوزہ شدید بجٹ کٹوتیوں کو مسترد کرنے والی ہے، مگر حالیہ اقدامات نے امریکی تحقیقی اداروں پر پہلے ہی اثر ڈال دیا ہے اور سائنسدانوں میں بے یقینی پیدا کر دی ہے، خاص طور پر ان لوگوں میں جن کے چین سے تعلقات ہیں۔
یونیورسٹی آف میری لینڈ کے سابق پروفیسر اور موجودہ فودان یونیورسٹی کے کیمسٹ لو وویوان نے کہا کہ بیرونِ ملک درخواستوں میں نمایاں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ ان کے مطابق ٬ چینی جامعات بھرپور طریقے سے اس موقع سے فائدہ اٹھا رہی ہیں۔
اسی طرح تسنگ ہوا یونیورسٹی کے پروفیسر لیو جن اور دیگر سائنسدانوں نے بھی وضاحت کی کہ انفرادی سطح پر شعبہ جات امریکی پالیسیوں کو ایک موقع کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
بھرتی کی یہ مہمات آن لائن بھی واضح ہیں۔ ووہان یونیورسٹی نے روبوٹکس، اے آئی اور سائبر سکیورٹی کے ماہرین کے لیے فنڈز اور سہولتوں کے ساتھ درخواستیں طلب کیں۔
چین کے ’’چھی منگ‘‘ پروگرام کا مقصد اعلیٰ سطحی ماہرین کو کمرشل ٹیکنالوجی سیکٹر، خصوصاً سیمی کنڈکٹرز میں لانا ہے، جسے امریکی برآمدی پابندیوں نے شدید دباؤ میں ڈال دیا ہے۔
مزید یہ کہ چین نے ’’کے ویزا‘‘ کا اعلان کیا ہے تاکہ نوجوان سائنس اور ٹیکنالوجی کے ماہرین کو متوجہ کیا جا سکے۔
دوسری جانب، امریکی حکومت نے ان پروگراموں کو برسوں سے ایک خطرہ قرار دیا ہے اور انہیں ٹیکنالوجی چرانے کی کوششوں سے جوڑا ہے۔ ’’تھاؤزنڈ ٹیلنٹس‘‘ پروگرام کو امریکی تحقیقات کے بعد محدود کر دیا گیا تھا۔
چین کی اقتصادی ترقی اور بڑھتی سائنسی طاقت نے بھی اس عمل کو تقویت دی ہے۔ صدر شی جن پنگ نے کہا تھا کہ قوم تبھی ترقی کرتی ہے جب اس کا علم و سائنس ترقی کرے۔ چین نے 2035 تک سائنس و ٹیکنالوجی میں خودکفیل طاقت بننے کا ہدف مقرر کیا ہے۔
آج چین قدرتی اور صحت سائنس کے جرائد میں امریکہ سے زیادہ تحقیقی مضامین شائع کر رہا ہے، اور اس کی جامعات عالمی درجہ بندی میں اوپر جا رہی ہیں۔ تاہم ماہرین کے مطابق ابھی بھی چین کو امریکہ کے برابر پہنچنے کے لیے وقت درکار ہے، خاص طور پر جب اس کی اپنی معیشت سست روی کا شکار ہے اور حکومتی کنٹرولز ماحول کو مختلف بناتے ہیں۔
اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ 2017 سے 2019 کے درمیان امریکہ سے ڈاکٹریٹ کرنے والے 83 فیصد چینی گریجویٹ 2023 تک وہیں مقیم رہے۔
چین میں رہائش، زبان اور سیاسی ماحول بھی غیر ملکی سائنسدانوں کے لیے چیلنج ہیں۔ کچھ سائنسدانوں کو چین میں پرو-امریکن سمجھ کر سوشل میڈیا پر تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
ویسٹ لیک یونیورسٹی کے پروفیسر یو ہونگ تاؤ نے کہا کہ صرف امریکہ سے فرار کی بنیاد پر فیصلہ نہ کیا جائے، بلکہ چین کو ایک موقع کے طور پر دیکھا جائے۔
بیشتر سائنسدانوں نے کہا کہ سب سے بڑی ترجیح ایک ایسا ماحول ہے جہاں پرامن انداز میں ریسرچ جاری رکھی جا سکے اور فنڈنگ دستیاب ہو۔
فیلڈز میڈلسٹ ریاضی دان یاو شنگ تنگ نے کہا کہ اگر امریکہ اپنی فنڈنگ کے معمولات برقرار رکھے تو چین کو برابر آنے میں وقت لگے گا، لیکن اگر وہ بہترین دماغ کھو بیٹھا تو یہ تباہی ہوگی۔
کئی سائنسدانوں نے اس تبدیلی کو امریکی پالیسیوں کی کوتاہی قرار دیا۔ پروفیسر لو نے کہا کہ مختصر نظر پالیسیوں نے امریکہ-چین سائنسی تعاون کو ختم کر دیا ہے، اور اس کا نقصان امریکہ کو چین سے کہیں زیادہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ انہیں امریکہ میں مواقع ملے، لیکن آج کا چین تیزی سے ایک سائنسی و تکنیکی طاقت بن رہا ہے۔
او ای سی ڈی کے مطابق 2023 میں چین نے ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ پر 780 ارب ڈالر سے زائد خرچ کیا، جبکہ امریکہ کا خرچ تقریباً 823 ارب ڈالر تھا۔