مانیٹرنگ ڈیسک (مشرق نامہ) – پاکستان کے مستقل مندوب برائے اقوامِ متحدہ عاصم افتخار احمد نے ایک حالیہ انٹرویو میں واضح کیا ہے کہ اسلام آباد ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے کے تمام نکات سے متفق نہیں ہے۔ ان کا یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا جب اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں ان کی اسرائیلی مندوب ڈینی ڈینن سے تلخ بحث کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی۔
احمد نے اسرائیل کو "غیر ملکی جارح، قابض قوت اور ریاستی دہشت گردی کا مرتکب ملک” قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ خود کو مظلوم ظاہر کرتا ہے حالانکہ وہ مظلوم نہیں بلکہ ظلم کرنے والا ہے۔
غزہ پر امریکی امن منصوبہ اور پاکستان کا موقف
عاصم افتخار نے مڈل ایسٹ آئی سے گفتگو میں بتایا کہ 23 ستمبر کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی زیرِ صدارت غزہ پر امن مذاکرات کی بند کمرہ میٹنگ میں پاکستان بھی شامل تھا۔ اس ملاقات میں آٹھ ممالک شریک ہوئے لیکن کوئی فلسطینی نمائندہ موجود نہیں تھا۔
انہوں نے بتایا کہ اس وقت کسی بھی شریک ملک کو امریکی منصوبے کا تحریری مسودہ فراہم نہیں کیا گیا تھا۔
ان کے مطابق، صدر ٹرمپ اور ان کی ٹیم نے اعتراف کیا کہ غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ ناقابلِ برداشت ہے اور اسے ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ ملاقات عمومی نوعیت کی تھی، ہمارے سامنے کوئی منصوبہ نہیں رکھا گیا۔
عاصم افتخار نے کہا کہ تمام شریک ممالک کے "واضح اہداف” تھے، جن میں فوری اور غیر مشروط جنگ بندی، جنگ کا خاتمہ، انسانی امداد کی فراہمی، فلسطینی قیدیوں اور اسرائیلی یرغمالیوں کا تبادلہ، جبری بے دخلی کی مخالفت، اور ایک آزاد فلسطینی ریاست کا قیام شامل تھا۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ نے غزہ کی تعمیرِ نو اور عبوری انتظامات کے بارے میں چند نکات پر تبادلۂ خیال کیا، مگر تفصیلی منصوبہ بعد میں سامنے آیا۔
پاکستان کی جزوی حمایت
احمد کے مطابق، پاکستان نے امن منصوبے کی مکمل تائید نہیں کی بلکہ صرف ان نکات کی حمایت کی جو جنگ بندی، انسانی امداد اور فلسطینی خودارادیت سے متعلق تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ یقیناً منصوبے میں کچھ ایسے عناصر موجود ہیں جو غیر مناسب ہیں، لیکن اس کے بنیادی نکات — خودارادیت اور ریاستی حیثیت — قابلِ توجہ ہیں۔
انہوں نے وضاحت کی کہ منصوبے کا ڈرافٹ بعد میں شیئر کیا گیا، لیکن وہ امریکہ کی جانب سے تیار کردہ دستاویز تھی، نہ کہ باہمی مشاورت سے مرتب کی گئی۔
جو اعلان کیا گیا وہ ہمارے مجوزہ نکات کے مطابق نہیں تھا۔ مشترکہ اعلامیہ کا مقصد صرف یہ واضح کرنا تھا کہ ہم کیا چاہتے ہیں، اور امید ہے کہ نفاذ کے دوران وہ امور شامل رہیں گے۔
احمد نے یہ بھی کہا کہ پاکستان نے جنگ بندی کے امریکی منصوبے کا خیرمقدم کیا کیونکہ سلامتی کونسل میں امریکہ نے متعدد بار غزہ میں جنگ بندی کی قراردادوں کو ویٹو کیا تھا۔
دنیا جانتی ہے کہ اسرائیل پر دباؤ ڈالنے کی واحد قوت امریکہ ہے۔ جنوری کی جنگ بندی اسی دباؤ کا نتیجہ تھی۔
متنازع کرداروں پر خدشات
عاصم افتخار نے سابق برطانوی وزیرِ اعظم ٹونی بلیئر کی منصوبے میں شمولیت پر بھی تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کئی لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کی ساکھ مشکوک ہے۔ بہتر ہوگا کہ ایسے متنازع کردار براہِ راست عملدرآمد میں شامل نہ ہوں، ورنہ پورا عمل نقصان اٹھائے گا۔
پاکستان کی سفارتی حیثیت میں تبدیلی
احمد نے انکشاف کیا کہ سعودی عرب اور پاکستان نے اسرائیلی حملوں کے بعد ایک باہمی دفاعی معاہدے پر دستخط کیے، جو اگرچہ پہلے سے زیرِ غور تھا، تاہم "اس کا وقت اور پیغام دونوں اہم تھے”۔
انہوں نے کہا کہ بھارت کے ساتھ حالیہ فضائی جھڑپوں کے بعد پاکستان کی عسکری صلاحیتوں کے بارے میں بین الاقوامی تاثر بہتر ہوا ہے۔
"ہم نے ایک بڑی طاقت کے خلاف اپنا دفاع کیا، جو آج کے ماحول میں خود انحصاری کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔”
مئی میں بھارتی فضائی حملوں کے بعد پاکستان نے چھ بھارتی طیارے مار گرائے، جن میں جدید رافیل طیارے بھی شامل تھے، جس نے خطے میں طاقت کے توازن پر نئے سوالات اٹھا دیے۔
امریکہ کے ساتھ تعلقات کی نئی جہت
امریکہ کی جانب سے پاکستان کو غزہ امن عمل میں شامل کرنا اسلام آباد کے لیے ایک نئی سفارتی پیش رفت سمجھی جا رہی ہے۔ عاصم افتخار کے مطابق پاکستان اب کوشش کر رہا ہے کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات کو صرف سیکیورٹی یا انسدادِ دہشت گردی تک محدود نہ رکھا جائے۔
تجارت، سرمایہ کاری اور ثقافتی روابط پر بھی بات ہو رہی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ تعلقات ماضی کی طرح اتار چڑھاؤ کا شکار نہ ہوں۔
عاصم افتخار نے کہا کہ پاکستان اب ایسی خارجہ پالیسی تشکیل دینے کا خواہاں ہے جو صرف ایک پہلو پر نہیں بلکہ کثیرالجہتی بنیادوں پر استوار ہو، تاکہ ملک عالمی سیاست میں ایک فعال، خودمختار کردار ادا کر سکے۔