امریکی محکمہ دفاع (پینٹاگون) کی ایک نئی رپورٹ میں تسلیم کیا گیا ہے کہ ایف-35 طیارہ اپنی وعدہ کی گئی صلاحیتوں کو کبھی حاصل نہیں کر پائے گا، جس سے تقریباً دو کھرب ڈالر کے دفاعی منصوبے کی ناکامی بے نقاب ہو گئی ہے اور امریکی فوجی اسلحہ سازی پر اعتماد متزلزل ہو گیا ہے۔
مانیٹرنگ ڈیسک (مشرق نامہ) – تقریباً پچیس برس قبل جب لاک ہیڈ مارٹن کو جوائنٹ اسٹرائیک فائٹر پروگرام کا ٹھیکہ دیا گیا تھا، تو اسے امریکی فضائی برتری کی علامت کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔ مگر ریسپانسبل اسٹیٹ کرافٹ کے تجزیہ کار ڈین گرازیئر کے مطابق، اب امریکی حکومت نے بالآخر تسلیم کر لیا ہے کہ ایف-35 اپنی اصل جنگی اہلیت کبھی حاصل نہیں کر سکے گا۔
ایف-35 کی صلاحیتوں میں کٹوتی کا باضابطہ اقرار
حکومتی ادارے گورنمنٹ اکاؤنٹیبلٹی آفس (GAO) کی تازہ رپورٹ کے مطابق، پروگرام کے منتظمین نے باضابطہ طور پر کہا ہے کہ پروگرام کا منصوبہ ہے کہ بلاک 4 کے دائرہ کار کو محدود کیا جائے تاکہ صلاحیتوں کی فراہمی پہلے کے مقابلے میں زیادہ قابلِ پیش گوئی انداز میں ہو سکے۔
گرازیئر کے مطابق یہ جملہ بظاہر تکنیکی ہے لیکن دراصل یہ تسلیم کرتا ہے کہ ایف-35 اپنے اصل اہداف حاصل نہیں کر پائے گا۔ "بلاک 4 کے دائرہ کار میں کمی” کا مطلب ہے کہ کئی جنگی خصوصیات اب ترک کی جا چکی ہیں۔
ایف-35 پروگرام کا آغاز 2000 کی دہائی کے اوائل میں امریکی تاریخ کے سب سے بڑے دفاعی منصوبے کے طور پر کیا گیا تھا، جس کا مقصد ایک ایسا لڑاکا طیارہ تیار کرنا تھا جو امریکی فوج کی تمام شاخوں اور اتحادی ممالک کے لیے موزوں ہو۔
تاہم GAO رپورٹ کے مطابق، طیارے کے کئی بنیادی ڈیزائن عناصر اب تک نامکمل ہیں۔ منصوبے کی اصل ترقی مقررہ وقت اور بجٹ کے اندر مکمل نہیں ہو سکی۔ ناکامی تسلیم کرنے کے بجائے، حکام نے اسے "جدید کاری کا مرحلہ” یا "بلاک 4” قرار دے کر جاری رکھا تاکہ مسائل کو چھپایا جا سکے۔
گرازیئر کے مطابق اس جدید کاری کے دائرہ کار میں کمی سے واضح ہو گیا ہے کہ الیکٹرانک وارفیئر، ہتھیاروں کے انضمام، اور نیویگیشن جیسی کئی خصوصیات کبھی حقیقت نہیں بنیں گی۔
لاک ہیڈ مارٹن اور پینٹاگون کی ناکامی
یہ فیصلہ پینٹاگون کے لیے ایک غیر متوقع موڑ ہے، جو برسوں تک ایف-35 کو مستقبل کی فضائی جنگ کا ستون قرار دیتا رہا۔ دو کھرب ڈالر سے زائد لاگت کے ساتھ، یہ منصوبہ دنیا کا سب سے مہنگا عسکری منصوبہ بن چکا ہے۔
گزشتہ دو دہائیوں سے امریکی حکام اور لاک ہیڈ مارٹن نے ایک ایسے "انقلابی لڑاکا طیارے” کا وعدہ کیا تھا جو آنے والی نسلوں کے لیے امریکی فضائی برتری کو یقینی بنائے گا۔ مگر GAO کی رپورٹ سے انکشاف ہوا ہے کہ یہ منصوبہ تاخیر، کارکردگی کی کمی، اور بڑھتے ہوئے اخراجات کے جال میں الجھ گیا ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پینٹاگون نے غیرمکمل ترقیاتی کام کو "جدید کاری” کا نام دے کر فنڈنگ جاری رکھی اور کانگریس کی جانچ سے بچنے کی کوشش کی۔
اتحادی ممالک پر اثرات
گرازیئر کے مطابق ایف-35 کی ناکامی صرف مالی نقصان نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر امریکی دفاعی ساکھ کے لیے بھی ایک دھچکا ہے۔ انیس ممالک، جن میں برطانیہ، ناروے اور اٹلی شامل ہیں، اس طیارے کے خریدار یا آپریٹر ہیں۔ ان ممالک نے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری اس امید پر کی تھی کہ انہیں دنیا کا سب سے جدید لڑاکا طیارہ ملے گا، مگر اب وہ بڑھتے اخراجات اور کم ہوتی کارکردگی کے مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔
واشنگٹن کی یقین دہانیوں پر بھروسہ کرنے والے ان اتحادیوں کے لیے یہ اعتراف مستقبل کی دفاعی شراکت داریوں اور اسلحہ خریداری کے معاہدوں پر اثر ڈال سکتا ہے۔ گرازیئر کے مطابق اگر امریکہ اپنی وعدہ کردہ ٹیکنالوجی فراہم کرنے میں ناکام رہا تو مستقبل کے امریکی اسلحہ پروگراموں پر عالمی اعتماد مزید کم ہو جائے گا۔
دفاعی اخراجات اور بدانتظامی کی علامت
ریسپانسبل اسٹیٹ کرافٹ کی رپورٹ کے مطابق ایف-35 پروگرام اب امریکی دفاعی اخراجات کی بدانتظامی کی ایک علامت بن چکا ہے — ایک ایسا منصوبہ جو سیاسی و صنعتی مفادات کے لیے تشکیل دیا گیا اور جس میں ایک ہی طیارے کو پندرہ سے زائد افواج کے مختلف تقاضوں پر پورا اترنے کے لیے ڈھالا گیا۔
ماہرین کے مطابق، یہ منصوبہ آغاز ہی سے ناکامی کے خطرے سے دوچار تھا۔ جو چیز "جدت کی کامیابی” بننی تھی، وہ اب دو کھرب ڈالر کی قیمت والا "ناکامی کا نشان” بن چکی ہے — جو امریکی دفاعی پالیسی میں فضول خرچی، ناقص نگرانی، اور غیرحقیقی توقعات کی نمائندگی کرتا ہے۔
گرازیئر کے بقول، ایف-35 اب مستقبل کی جنگ کا استعارہ نہیں بلکہ ایک ایسا سبق ہے جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ غیر محدود عسکری اخراجات اور حد سے بڑھی ہوئی بلند پروازی آخرکار ناکامی پر منتج ہوتی ہے۔