جمعہ, اکتوبر 10, 2025
ہومبین الاقوامیٹرمپ کا دباؤ، بادشاہ کی مزاحمت: فلسطینیوں کی جبری نقل مکانی پر...

ٹرمپ کا دباؤ، بادشاہ کی مزاحمت: فلسطینیوں کی جبری نقل مکانی پر سفارتی کشمکش
ٹ

خلاصہ:

اردن نے فلسطینیوں کی مستقل آبادکاری سے متعلق ٹرمپ کے منصوبے کو مسترد کر دیا۔

ٹرمپ عرب رہنماؤں کے عدم تعاون پر برہمی کا اظہار کر رہے ہیں۔

امریکی امداد کی معطلی سے اردن کی معیشت متاثر ہو رہی ہے۔

واشنگٹن، 11 فروری– امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے منگل کے روز اردن کے بادشاہ عبداللہ پر زور دیا کہ وہ ان فلسطینیوں کو پناہ دیں جو ان کے منصوبے کے تحت مستقل طور پر بے گھر ہو جائیں گے۔ تاہم، بادشاہ عبداللہ نے اس اقدام کی سختی سے مخالفت کرتے ہوئے اردن کے واضح اور مستقل مؤقف کا اعادہ کیا۔

وائٹ ہاؤس میں بادشاہ عبداللہ کے ہمراہ گفتگو کے دوران، ٹرمپ نے عندیہ دیا کہ وہ اپنی تجویز سے پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں، جس میں غزہ پٹی کے جنگ زدہ شہریوں کی منتقلی اور اس علاقے کی ازسرِنو تعمیر شامل ہے، جسے انہوں نے "مشرق وسطیٰ کی رویرا” قرار دیا۔

ٹرمپ کے اس مؤقف نے عرب دنیا میں شدید غم و غصے کو جنم دیا، کیونکہ ان کے منصوبے کے تحت فلسطینیوں کو اپنے گھروں کو واپس جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ انہوں نے کہا، "ہم اسے سنبھالیں گے، اسے ترقی دیں گے، اور بالآخر مشرق وسطیٰ کے عوام کے لیے بے شمار ملازمتوں کے مواقع پیدا کریں گے۔”

بادشاہ عبداللہ نے بعد میں ایک بیان میں کہا کہ انہوں نے ٹرمپ کو اردن کے "دوٹوک اور مستقل مؤقف” سے آگاہ کر دیا ہے کہ نہ صرف غزہ بلکہ مغربی کنارے کے فلسطینیوں کی جبری نقل مکانی ناقابلِ قبول ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر جاری کردہ بیان میں انہوں نے کہا، "یہ تمام عرب ممالک کا متفقہ مؤقف ہے۔ ہماری اولین ترجیح غزہ کی تعمیرِ نو اور وہاں کی سنگین انسانی صورتحال کا فوری حل ہونا چاہیے، نہ کہ فلسطینیوں کی نقل مکانی۔”

امریکی امداد اور سفارتی دباؤ

ٹرمپ نے اس یقین کا اظہار کیا کہ اردن اور مصر بالآخر غزہ کے بے گھر فلسطینیوں کو پناہ دینے پر آمادہ ہو جائیں گے، کیونکہ دونوں ممالک امریکی معاشی اور فوجی امداد پر انحصار کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا، "مجھے یقین ہے کہ اردن میں ایک مخصوص علاقہ فراہم کیا جائے گا، اور ایسا ہی مصر میں بھی ہوگا۔ ہوسکتا ہے کہ کوئی اور مقام بھی شامل ہو، لیکن جب ہماری بات چیت مکمل ہوگی، تو ایک ایسا منصوبہ سامنے آئے گا جہاں یہ لوگ خوش اور محفوظ زندگی گزار سکیں گے۔”

حالانکہ ٹرمپ نے کہا کہ وہ اردن کی امریکی امداد کو دباؤ کے ہتھیار کے طور پر استعمال نہیں کر رہے، تاہم ان کے تبصروں سے یہ اشارہ ملا کہ امداد کی معطلی ایک ممکنہ سفارتی حربہ ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا، "ہم اردن اور مصر کو بہت زیادہ مالی مدد فراہم کرتے ہیں، لیکن مجھے اس پر دباؤ ڈالنے کی ضرورت نہیں۔ ہم اس سطح سے اوپر ہیں۔”

اردن پہلے ہی فلسطینیوں کی نقل مکانی اور زمین کے الحاق کی کسی بھی کوشش کی سختی سے مخالفت کر چکا ہے۔ بادشاہ عبداللہ وہ پہلے عرب رہنما ہیں جو اس متنازع منصوبے کے اعلان کے بعد ٹرمپ سے ملاقات کر رہے ہیں۔

حساس علاقائی صورتحال اور جنگ بندی کا بحران

اگرچہ بادشاہ عبداللہ اور ٹرمپ کے درمیان ملاقات بظاہر خوشگوار رہی، لیکن غزہ سے متعلق امریکی صدر کے بیانات نے اردنی قیادت کو مشکل صورتحال میں ڈال دیا۔ فلسطینی مہاجرین کی واپسی کے حق کا معاملہ اردن کے لیے انتہائی حساس ہے، جہاں پہلے ہی 20 لاکھ سے زائد فلسطینی مہاجرین آباد ہیں۔

ٹرمپ نے ایک موقع پر بادشاہ عبداللہ کو مجبور کرنے کی کوشش کی کہ وہ غزہ کے فلسطینیوں کو پناہ دینے پر رضامندی ظاہر کریں۔ تاہم، بادشاہ نے دوٹوک مؤقف اپناتے ہوئے کہا کہ وہ اپنی قوم کے بہترین مفاد کو مدنظر رکھیں گے۔ البتہ، انہوں نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر 2,000 بیمار فلسطینی بچوں کو اردن میں علاج کی سہولت فراہم کرنے کی پیشکش کی، جسے ٹرمپ نے سراہا۔

اردن کے وزیر خارجہ ایمن الصفدی نے بعد میں سرکاری ٹی وی المملکہ کو بتایا کہ ایک عرب منصوبہ زیر غور ہے، جس کی قیادت مصر کر رہا ہے، اور اس کا مقصد غزہ کی تعمیرِ نو کو یقینی بنانا ہے بغیر اس کے کہ وہاں کے شہریوں کو زبردستی نقل مکانی پر مجبور کیا جائے۔

امریکی امداد کی معطلی اور علاقائی اثرات

اردن پہلے ہی ٹرمپ کے 90 دن کی امدادی معطلی سے متاثر ہو رہا ہے، جبکہ اسرائیل اور مصر کو اس سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔ 1.45 بلین ڈالر سالانہ امداد کی معطلی اردن کی اقتصادی پالیسیوں کے لیے ایک نازک صورتحال پیدا کر رہی ہے۔

دریں اثنا، خطے میں جنگ بندی مزید کمزور ہو گئی ہے۔ حماس نے پیر کے روز اعلان کیا کہ وہ اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کو اس وقت تک روک دے گی جب تک کہ اسرائیل حملے بند نہیں کرتا۔ اس کے جواب میں، ٹرمپ نے کہا کہ اگر ہفتے تک تمام یرغمالیوں کو رہا نہ کیا گیا تو "تمام معاہدے ختم ہو جائیں گے۔”

ریپبلکن اور ڈیموکریٹ حلقوں میں بھی ٹرمپ کی غزہ پالیسی پر شدید اختلاف پایا جاتا ہے۔ ایک حالیہ رائٹرز/ایپسوس سروے کے مطابق، 74 فیصد امریکی عوام نے غزہ پر امریکی کنٹرول اور فلسطینیوں کی بے دخلی کے تصور کی مخالفت کی، جبکہ ریپبلکن ووٹرز میں یہ تقسیم 55 فیصد مخالفت اور 43 فیصد حمایت کی صورت میں سامنے آئی۔

مقبول مضامین

مقبول مضامین