ہفتہ, اکتوبر 11, 2025
ہومپاکستانپیکا ایکٹ: سندھ اور لاہور ہائیکورٹس نے وفاق کو نوٹس جاری, جواب...

پیکا ایکٹ: سندھ اور لاہور ہائیکورٹس نے وفاق کو نوٹس جاری, جواب طلب
پ

سندھ اور لاہور ہائی کورٹس نے پیکا ایکٹ کے خلاف درخواست پر وفاقی حکومت کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب داخل کرنے کی ہدایت دی۔ سندھ ہائی کورٹ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں بینچ نے پیکا ایکٹ کے خلاف درخواست کی سماعت کی۔ دورانِ سماعت، عدالت نے درخواست گزار کے وکیل سے استفسار کیا کہ اس قانون میں آپ کو کیا خامی نظر آتی ہے؟ اگر کوئی غلط خبر پھیلاتا ہے تو کیا اسے سزا نہیں ملنی چاہیے؟ درخواست گزار کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ بنیادی سوال یہ ہے کہ غلط اور صحیح کا فیصلہ کون کرے گا؟

عدالت نے ریمارکس دیے کہ تمام فیصلے عدالتوں میں نہیں ہوتے، کچھ فیصلے متعلقہ اتھارٹیز کو بھی کرنے ہوتے ہیں، اور آپ کو ان کے خلاف اپیل کا حق بھی حاصل ہے۔ وکیل نے جواب دیا کہ یہ بنیادی حقوق سے متعلق معاملات ہیں، جن پر فیصلہ عدالت کو ہی کرنا چاہیے۔ اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر یہ بنیادی حقوق کا معاملہ ہے تو اسے آئینی بینچ کے سامنے پیش کیا جانا چاہیے درخواست گزار کے وکیل نے مؤقف اپنایا کہ اٹک سیمنٹ کیس میں عدالت پہلے ہی یہ طے کر چکی ہے کہ ریگولر بینچز کسی بھی قانون کی آئینی حیثیت کا جائزہ لے سکتے ہیں۔ بعد ازاں، عدالت نے وفاقی حکومت کو نوٹس جاری کرتے ہوئے توقع ظاہر کی کہ وکلاء آئندہ سماعت میں مکمل تیاری کے ساتھ پیش ہوں گے۔ لاہور ہائی کورٹ نے بھی پیکا ایکٹ کے خلاف دائر درخواست پر فریقین سے 5 مارچ تک جواب طلب کر لیا۔ عدالت نے ہدایت دی کہ اس درخواست کو اسی نوعیت کی دیگر درخواستوں کے ساتھ سماعت کے لیے مقرر کیا جائے اور مزید سماعت دو ہفتوں کے لیے ملتوی کر دی۔ یہ درخواست اپوزیشن لیڈر پنجاب اسمبلی احمد بچھر سمیت دیگر افراد نے اظہر صدیق ایڈووکیٹ کے توسط سے دائر کی لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس فاروق حیدر نے پیکا ترمیمی ایکٹ 2025 کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔ درخواست گزار کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ درخواست میں پیکا ایکٹ کی بعض شقوں کو چیلنج کیا گیا ہے، اس لیے اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کیا جانا چاہیے۔ جسٹس فاروق حیدر نے ریمارکس دیے کہ یہ کوئی قانون نہیں، بلکہ صرف عدالتی نظیر ہے۔ درخواست گزار کے وکیل نے مزید کہا کہ پیکا ترمیمی ایکٹ آئین کے آرٹیکل 19 اے کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ بعد ازاں عدالت نے نوٹس جاری کرتے مزید سماعت ملتوی کر دی۔

یاد رہے کہ صدر مملکت آصف علی زرداری کے 29 جنوری کو دستخط کرنے کے بعد ‘دی پریونشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (ترمیمی) بل 2025’پیکا (پیکا) قانون بن گیا تھا۔ یہ بل 22 جنوری کو قومی اسمبلی اور بعد ازاں سینیٹ سے منظور ہوا، جس کے بعد صدر نے اس کی توثیق کر دی نئے قانون کے تحت وفاقی حکومت نے ملک میں پہلی بار ‘سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی’ (سمپرا) کے قیام کا اعلان کیا ہے، جس کا مقصد سوشل میڈیا کو قانونی دائرہ کار میں لانا ہے۔ یہ اپنی نوعیت کی پہلی خود مختار اتھارٹی ہوگی، جو ملکی تاریخ میں پہلی بار تمام سوشل میڈیا ایپس، ویب سائٹس اور اسٹریمنگ پلیٹ فارمز کی رجسٹریشن کو یقینی بنائے گی۔ قانون کے مطابق، سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی کا مرکزی دفتر اسلام آباد میں ہوگا، جبکہ صوبائی دارالحکومتوں میں بھی اس کے دفاتر قائم کیے جائیں گے۔ اتھارٹی کے اختیارات

سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی (سمپرا) سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی رجسٹریشن، رجسٹریشن کی منسوخی، اور معیارات کے تعین مجاز ہوگی۔ اس کے علاوہ، یہ پلیٹ فارمز کی سہولت کاری، صارفین کے تحفظ، اور ان کے حقوق کو یقینی بنانے کے لیے بھی اقدامات کرے گی۔

’غیر قانونی‘ مواد کی تعریف

پیکا ترمیمی بل 2025 کے مطابق، درج ذیل اقسام کا مواد غیر قانونی تصور کیا جائے گا:

  • ایسا مواد جو پاکستان کے نظریے کے خلاف ہو۔
  • ایسا مواد جو افراد کو قانون ہاتھ میں لینے کے لیے اشتعال دلائے یا عوام، گروہوں، سرکاری افسران، یا اداروں میں خوف و ہراس پھیلائے۔
  • ایسا مواد جو عوام یا کسی مخصوص طبقے کو سرکاری یا نجی املاک کو نقصان پہنچانے پر اکساتا ہو یا قانونی تجارت اور شہری زندگی میں خلل ڈالے۔
  • ایسا مواد جو تشدد کو ہوا دے یا داخلی بدامنی پیدا کرنے کے لیے مذہبی، فرقہ وارانہ، یا نسلی بنیادوں پر نفرت اور توہین کو فروغ دے۔

غیر قانونی مواد کی مزید وضاحت

پیکا ترمیمی بل 2025 کے تحت درج ذیل اقسام کا مواد بھی غیر قانونی تصور کیا جائے گا

  • ایسا مواد جو پارلیمنٹ، صوبائی اسمبلیوں، عدلیہ، یا مسلح افواج سے متعلق شکوک و شبہات پیدا کرے۔
  • ایسا مواد جو ریاستی اداروں کے خلاف پرتشدد کارروائیوں یا دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کرے۔

اس قانون کے نافذ ہونے کے بعد:

  • اسپیکر قومی و صوبائی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کی جانب سے حذف کیے گئے الفاظ نشر نہیں کیے جا سکیں گے۔
  • کالعدم تنظیموں کے سربراہان اور نمائندوں کے بیانات کسی بھی شکل میں نشر کرنا غیر قانونی تصور کیا جائے گا۔

کس کو سزا دی جائے گی؟

پیکا ترمیمی بل 2025 میں سزا کے لیے ’اقدام‘ کی واضح تعریف دی گئی ہے۔

اس کے مطابق، جھوٹی اور جعلی معلومات پھیلانے پر سزا اس شخص کو دی جائے گی جو:

  • جان بوجھ کر کسی بھی انفارمیشن سسٹم کے ذریعے جھوٹی یا جعلی معلومات پھیلائے، عوامی طور پر ظاہر کرے یا منتقل کرے۔
  • ایسی معلومات پھیلانے کا مرتکب ہو، جسے وہ جانتا ہو یا جس کے متعلق اسے یقین کرنے کی معقول وجہ ہو کہ وہ غلط ہے۔
  • ایسا مواد نشر کرے جس سے خوف و ہراس پیدا ہونے کا امکان ہو، عام لوگوں یا معاشرے میں بے چینی یا بدامنی پھیل سکتی ہو۔
مقبول مضامین

مقبول مضامین