جمعہ, اکتوبر 10, 2025
ہومپاکستانپاکستان میں سونے کے ذخائر: حقیقت یا دعوے؟ اٹک سے ریکوڈک تک

پاکستان میں سونے کے ذخائر: حقیقت یا دعوے؟ اٹک سے ریکوڈک تک
پ

پاکستان میں سونے کے ذخائر کے حوالے سے مختلف حکومتوں کی جانب سے متعدد دعوے کیے جا چکے ہیں۔ 2015 میں وزیرِ اعظم نواز شریف نے چنیوٹ میں لوہے، تانبے اور سونے کے ذخائر کی موجودگی کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان ذخائر سے پاکستان میں خوشحالی کا انقلاب آئے گا۔ حالیہ دنوں میں پنجاب کے وزیرِ معدنیات شیر علی گورچانی نے دعویٰ کیا ہے کہ ضلع اٹک میں 700 ارب روپے مالیت کے سونے کے ذخائر موجود ہیں۔

مقامی میڈیا کے مطابق، وزیرِ معدنیات کا کہنا ہے کہ اٹک کے 32 کلومیٹر کے علاقے میں 28 لاکھ تولے سونے کے ذخائر موجود ہیں، جن کی قیمت تقریباً 600 سے 700 ارب روپے کے درمیان ہے۔ اس سے قبل، پنجاب کے سابق وزیر معدنیات ابراہیم حسن مراد نے بھی دعویٰ کیا تھا کہ اٹک میں دریائے سندھ اور دریائے کابل کے سنگم پر سونے کے ذخائر پائے جاتے ہیں۔

انہوں نے ایک نجی ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ جب وہ وزیر تھے تو اٹک میں کچھ افراد مشینوں کے ذریعے دریا میں کھدائی کر رہے تھے۔ تحقیقات کے بعد یہ ثابت ہوا کہ لوگ سونا تلاش کر رہے تھے، جس کے بعد علاقے میں دفعہ 144 نافذ کر کے سونے کی تلاش پر پابندی عائد کر دی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ جیولوجیکل سروے آف پاکستان (جی ایس پی) نے 25 کلومیٹر کے علاقے سے 500 نمونے اکٹھے کیے، جن سے سونے کی موجودگی کی تصدیق ہوئی۔

پاکستان میں سونے کے ذخائر کہاں پائے جاتے ہیں؟

وزارتِ پیٹرولیم کی معدنیات ونگ کی تیار کردہ رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں سونے کے ذخائر بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں موجود ہیں، جن کا تخمینہ 1.6 ارب ٹن لگایا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں ہر سال تقریباً ڈیڑھ سے دو ٹن سونا نکالا جاتا ہے، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ بلوچستان کے ریکوڈک منصوبے کی تکمیل کے بعد پاکستان کی سونے کی پیداوار اگلے دس سالوں میں 8 سے 10 ٹن سالانہ تک پہنچ سکتی ہے۔

سیندک منصوبہ

سیندک منصوبہ بلوچستان کے ضلع چاغی میں 1990 میں شروع کیا گیا تھا، جس میں چینی کمپنی کو کان کی کھدائی اور دیگر بنیادی سہولتوں کی ذمہ داری دی گئی تھی۔ 1995 میں اس منصوبے کا آزمائشی آپریشن شروع کیا گیا، تاہم اگلے سال تکنیکی وجوہات کی بنا پر اسے معطل کر دیا گیا۔ 2003 میں یہ منصوبہ دوبارہ فعال کیا گیا اور چین کی میٹالرجیکل کنسٹرکشن کارپوریشن کو اس کی نگرانی سونپ دی گئی۔

ریکوڈک منصوبہ

ریکوڈک منصوبہ بلوچستان کے ضلع چاغی میں واقع ہے اور یہ دنیا کے سب سے بڑے کاپر اور سونے کے ذخائر میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان نے اس منصوبے پر کام تین دہائیاں قبل شروع کیا تھا، مگر 2013 میں مائننگ کا لائسنس نہ ملنے کی وجہ سے کمپنی نے تنازعات کے حل کے لیے بین الاقوامی فورمز کا رخ کیا۔ اس کے بعد حکومت نے بیرک گولڈ کمپنی کے ساتھ مذاکرات کیے اور مارچ 2022 میں معاہدہ طے پا گیا۔ منصوبے کا مقصد 2028 تک پیداوار شروع کرنا ہے۔

چنیوٹ کے ذخائر

2015 میں چنیوٹ میں لوہے اور تانبے کے بڑے ذخائر کی موجودگی کا اعلان کیا گیا تھا۔ پنجاب منرل کارپوریشن کے سربراہ ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے بتایا کہ چنیوٹ میں 261.5 ملین ٹن اعلیٰ معیار کے لوہے اور 36.5 ملین ٹن تانبے کے ذخائر دریافت ہوئے ہیں۔

پلیسر گولڈ اور شمالی علاقوں میں سونے کے ذخائر

پاکستان کے شمالی علاقوں میں سونے کے ذخائر پائے جانے کے امکانات ہیں، خاص طور پر گلگت، ہنزہ اور غزر میں۔ پروفیسر عدنان خان کے مطابق سونا اکثر اگنیس اور میٹا مورفک پتھروں میں پایا جاتا ہے، جو پاکستان کے شمالی علاقوں میں موجود ہیں۔ ان علاقوں میں تانبے کے ذخائر بھی بڑی مقدار میں موجود ہیں، اور تانبے کے ساتھ سونا بھی نکل سکتا ہے۔

ڈاکٹر احتشام اسلام کا کہنا ہے کہ شمالی وزیرستان اور دیگر علاقوں میں بھی سونے کے ذخائر ہو سکتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ تانبے کے ذخائر کے ساتھ سونا بھی نکل سکتا ہے، اگرچہ اس کی مقدار کم یا زیادہ ہو سکتی ہے۔ پروفیسر عدنان خان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سونے کی دریافت اکثر حادثاتی طور پر ہوتی ہے، جس کی وجہ ریسرچ اور انڈسٹریز کے درمیان تعاون کا فقدان ہے۔

مقبول مضامین

مقبول مضامین