ہفتہ, اکتوبر 11, 2025
ہومبین الاقوامیکابل میں دھماکے، طالبان کا بھارت سے سفارتی رابطوں کا آغاز

کابل میں دھماکے، طالبان کا بھارت سے سفارتی رابطوں کا آغاز
ک

اسلام آباد (مشرق نامہ) – افغانستان کے دارالحکومت کابل میں جمعرات کی شب یکے بعد دیگرے دھماکوں اور فائرنگ کی آوازوں سے شہر گونج اٹھا۔ مقامی میڈیا کے مطابق دھماکوں کی نوعیت اور ممکنہ ہلاکتوں کی تفصیلات تاحال واضح نہیں ہو سکیں۔

طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے تصدیق کی کہ کابل میں ایک دھماکہ ہوا ہے تاہم کہا کہ معاملے کی تحقیقات جاری ہیں۔ انہوں نے پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر پشتو میں لکھا کہ کابل شہر میں ایک دھماکہ سنا گیا، لیکن تشویش کی کوئی بات نہیں۔ سب کچھ خیریت سے ہے، حادثے کی تحقیقات ہو رہی ہیں اور تاحال کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی۔

یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب افغانستان اور پاکستان کے تعلقات میں شدید کشیدگی پائی جا رہی ہے۔ اسلام آباد طویل عرصے سے الزام عائد کرتا آیا ہے کہ طالبان حکومت تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو پناہ فراہم کر رہی ہے، جسے پاکستان اپنی فورسز پر بڑھتے ہوئے حملوں کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔

یہ دھماکے ایسے وقت میں ہوئے جب طالبان کے وزیرِ خارجہ امیر خان متقی بھارت کے دورے پر پہنچے، جو اگست 2021 میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد کسی اعلیٰ افغان اہلکار کا بھارت کا پہلا دورہ ہے۔

سوشل میڈیا پر فوری طور پر پاکستان کے ملوث ہونے کے بارے میں قیاس آرائیاں شروع ہو گئیں، جن کے مطابق ممکنہ طور پر ٹی ٹی پی کے سربراہ نور ولی محسود سمیت بعض اہم رہنماؤں کو نشانہ بنایا گیا۔ تاہم طالبان نے کسی ملک پر براہِ راست الزام عائد نہیں کیا۔

پاکستانی سیکیورٹی حکام نے، جنہیں میڈیا سے بات کرنے کی اجازت نہیں تھی، نہ تصدیق کی نہ تردید۔ ایک اہلکار نے الجزیرہ کو بتایا کہ ہم نے کابل میں ہونے والے دھماکوں سے متعلق رپورٹس دیکھی ہیں، لیکن ہمارے پاس مزید تفصیلات نہیں ہیں۔ وزارتِ خارجہ پاکستان نے بھی الجزیرہ کے سوالات کا جواب نہیں دیا۔

طالبان یا ٹی ٹی پی کی جانب سے محسود کے حوالے سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا، تاہم ذبیح اللہ مجاہد کے مطابق کسی ہلاکت کی اطلاع نہیں ملی۔

ایک وقت میں پاکستان کے قریبی اتحادی سمجھے جانے والے طالبان حالیہ برسوں میں اپنی خارجہ پالیسی کو نئے سرے سے متوازن کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور بھارت جیسے سابق مخالف ممالک سے روابط بڑھا رہے ہیں تاکہ بین الاقوامی سطح پر باضابطہ سفارتی تسلیم حاصل کیا جا سکے۔

دوسری جانب پاکستان کا کہنا ہے کہ بھارت پاکستان میں سرگرم مسلح گروہوں کی پشت پناہی کر رہا ہے، تاہم نئی دہلی ان الزامات کی سختی سے تردید کرتا ہے۔

کابل اور اسلام آباد کے درمیان نازک تعلقات

2024 پاکستان کے لیے گزشتہ دہائی کا سب سے خونریز سال ثابت ہوا، جب 2,500 سے زائد افراد تشدد اور دہشت گردی میں مارے گئے۔ اس کے بعد دونوں ممالک نے تعلقات بحال کرنے کی کوشش کی۔

اپریل 2025 میں پاکستان کے نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے کابل کا دورہ کیا، جس کے بعد چین کی ثالثی میں کئی اعلیٰ سطحی ملاقاتیں ہوئیں اور دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی روابط عارضی طور پر بہتر ہوئے۔ تاہم اسلام آباد کے تحقیقی ادارے پاکستان انسٹیٹیوٹ آف کانفلکٹ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز (PICSS) کے مطابق 2025 کی پہلی تین سہ ماہیوں میں تشدد کی سطح تقریباً 2024 کے برابر رہی۔

امریکی ادارے اے سی ایل ای ڈی (ACLED) کے مطابق 2021 سے اب تک پاکستان میں دہشت گردی کے بڑھنے کی سب سے بڑی وجہ ٹی ٹی پی ہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق٬ گزشتہ سال کے دوران ٹی ٹی پی نے کم از کم 600 حملے یا جھڑپیں سیکیورٹی فورسز کے ساتھ کیں، اور 2025 میں اس کی سرگرمیوں کی رفتار 2024 سے بھی زیادہ ہے۔

حالیہ دنوں میں پاکستان میں تشدد میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ شمال مغربی صوبہ خیبر پختونخوا میں متعدد حملوں میں درجنوں فوجی ہلاک ہوئے۔ فوج کے مطابق اورکزئی میں کیے گئے آپریشن میں 30 سے زائد عسکریت پسند مارے گئے۔

ستمبر 2025 میں کم از کم 135 افراد ہلاک اور 173 زخمی ہوئے۔ ان حملوں کے بعد وزیراعظم شہباز شریف نے زخمی فوجیوں سے ملاقات کے دوران کابل حکومت کو سخت پیغام دیا:
انہوں نے کہا کہ اگر افغان حکومت خیرسگالی اور اخلاص کے ساتھ تعلقات چاہتی ہے تو پاکستان تیار ہے، مگر اگر وہ دہشت گردوں کا ساتھ دے گی تو ہم ان سے کوئی تعلق نہیں رکھیں گے۔

جمعرات کو وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے پارلیمنٹ میں کہا کہ افغان حکومت کے ساتھ برسوں سے مذاکرات اور وفود کے تبادلوں کے باوجود پاکستان میں خون بہنا نہیں رکا۔ ہمارے فوجی روزانہ شہید ہو رہے ہیں۔ ہم 60 سالہ افغان مہاجرین کی میزبانی کا خمیازہ اپنے خون سے ادا کر رہے ہیں۔

پاکستان نے 1980 کی دہائی سے لاکھوں افغان مہاجرین کی میزبانی کی ہے۔ 2023 کے آخر سے حکومت انہیں ملک بدر کر رہی ہے، اور اب تک 10 لاکھ سے زائد افراد کو واپس افغانستان بھیجا جا چکا ہے۔

اعتماد کی خلیج مزید گہری

گزشتہ برسوں میں دونوں ممالک کے تعلقات فوجی جھڑپوں تک جا پہنچے ہیں۔ پاکستان کی فضائیہ 2024 میں بھی افغان سرزمین پر حملے کر چکی ہے۔

کابل کے سیکیورٹی تجزیہ کار تمیم بہیس کا کہنا ہے کہ اگر حالیہ دھماکے پاکستان سے منسلک ثابت ہوئے تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستانی حملے ماضی میں بھی کسی نتیجے تک نہیں پہنچے، بلکہ باہمی بداعتمادی بڑھانے کا باعث بنے۔ یہ نیا واقعہ دونوں ملکوں کے درمیان رابطوں کو مزید پیچیدہ بنا دے گا۔

اسلام آباد کے تجزیہ کار احسان اللہ ٹیپو محسود کے مطابق اگر پاکستان واقعی ملوث ہے تو ممکن ہے یہ اقدام حالیہ حملوں کے جواب میں ایک انتباہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کابل، جو سیاسی مرکز ہے، اور قندھار، جو طالبان کا روحانی مرکز سمجھا جاتا ہے، دونوں جگہ ہائی ویلیو اہداف کو نشانہ بنانے کی کوشش کر سکتا ہے اگر ٹی ٹی پی کے حملے جاری رہے۔

تاہم بہیس نے خبردار کیا کہ اگر پاکستان افغان سرزمین پر کارروائیاں جاری رکھتا ہے تو یہ خود اس کے خلاف جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایسے حملوں سے افغان عوام میں ٹی ٹی پی کے لیے ہمدردی پیدا ہو سکتی ہے، جو نئی بھرتیوں، مالی مدد اور طالبان کے کچھ حلقوں کی خاموش حمایت میں بدل سکتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر واقعی ٹی ٹی پی رہنما کابل میں نشانہ بنائے گئے تو یہ گروہ کے لیے ایک واضح پیغام ہوگا کہ وہ دارالحکومت میں بھی محفوظ نہیں۔
“ٹی ٹی پی اپنی قیادت کو منتقل کر سکتی ہے، سیکیورٹی سخت کرے گی، اور ممکنہ طور پر پاکستان میں مزید پرتشدد جوابی کارروائیاں کرے گی،” انہوں نے کہا۔

مقبول مضامین

مقبول مضامین