بغداد (مشرق نامہ) — امریکی تیل کمپنی ایکسون موبل تقریباً دو سال کے وقفے کے بعد عراق کے توانائی شعبے میں دوبارہ داخل ہونے کی تیاری کر رہی ہے، جو اس بات کی علامت ہے کہ بغداد نے غیر ملکی سرمایہ کاری پر اپنی گرفت مضبوط کر لی ہے اور اپنے قدرتی وسائل کے انتظام میں مکمل خودمختاری کے عزم کا اظہار کیا ہے۔
بلومبرگ نیوز کے مطابق، ایکسون موبل جلد عراق کے جنوبی علاقے میں واقع مجنون آئل فیلڈ میں نئی تلاش اور ترقی کے لیے ابتدائی معاہدوں پر دستخط کرنے والی ہے۔ یہ آئل فیلڈ بصرہ سے تقریباً 60 کلومیٹر شمال میں واقع ہے اور دنیا کے سب سے بڑے تیل ذخائر میں شمار ہوتی ہے، جس میں تقریباً 38 ارب بیرل خام تیل کے ذخائر موجود ہیں۔
ذرائع کے مطابق، کمپنی آنے والے دنوں میں بصرہ آئل کمپنی اور عراق کی اسٹیٹ آرگنائزیشن فار مارکیٹنگ آف آئل (سومو) کے ساتھ معاہدے کو حتمی شکل دے گی، جس سے جنوبی عراق میں ایکسون کی باقاعدہ واپسی ہوگی — وہی علاقہ جو عراق کی تیل برآمدات اور عالمی توانائی منڈی میں اس کے اثر و رسوخ کی بنیاد سمجھا جاتا ہے۔
ایکسون موبل کے ترجمان نے رائٹرز سے گفتگو میں کہا کہ کمپنی عراقی وزارتِ تیل کے ساتھ مواقع پر بات چیت کر رہی ہے تاکہ اپنے سرمایہ کاری کے پورٹ فولیو کو بہتر بنایا جا سکے۔
آئندہ معاہدے میں تیل برآمدی ڈھانچے اور مارکیٹنگ کے منصوبے بھی شامل ہوں گے، جو بغداد کی اس وسیع تر حکمتِ عملی کے مطابق ہیں جس کے تحت وہ غیر ملکی کمپنیوں کو قومی شرائط پر سرمایہ کاری کے لیے راغب کرنا چاہتا ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں عراق نے اپنی توانائی برآمدات کے پورے نظام پر ریاستی کنٹرول دوبارہ قائم کر لیا ہے، جو سیاسی عدم استحکام اور انتظامی تقسیم کے بعد ایک بڑی پیش رفت ہے۔
عراق کی خودمختاری کی جانب ایک نیا موڑ
ایکسون موبل کی واپسی ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب عراق اپنی توانائی پالیسی میں مکمل خودمختاری کے راستے پر گامزن ہے۔ حال ہی میں بغداد نے کردستان ریجنل گورنمنٹ (کے آر جی) کے ساتھ ایک تاریخی معاہدہ کیا، جس کے تحت عراق-ترکی پائپ لائن کے ذریعے تیل کی برآمدات وفاقی حکومت کے کنٹرول میں دوبارہ شروع کی گئیں۔ اس معاہدے کے بعد پہلی بار تمام تیل کی مارکیٹنگ سومو کے ذریعے کی جا رہی ہے، اور قومی آمدنی براہِ راست وفاقی نظام کے تحت تقسیم ہو رہی ہے۔
یہ اقتصادی مرکزیت نہ صرف مالی استحکام بلکہ خارجہ پالیسی میں بھی ایک نئی سمت کی نشاندہی کرتی ہے، کیونکہ عراق اب عالمی طاقتوں کے ساتھ تعاون کو توازن میں رکھتے ہوئے امریکی اثر و رسوخ سے آزاد خارجہ پالیسی اپنانے کی کوشش کر رہا ہے۔
سال 2025 کے اختتام تک امریکی افواج کی تعداد 2,500 سے گھٹ کر 2,000 سے کم رہ جائے گی، جو بغداد کی اس پالیسی کی عکاس ہے کہ ملک کی سیکیورٹی پالیسی پر مکمل کنٹرول خود سنبھالا جائے۔ اس تبدیلی کے بعد عراق میں امریکی فوجی مشن ایک محدود دوطرفہ مشاورت کے پروگرام میں بدل جائے گا، جو عراق کے اپنی خودمختاری پر بڑھتے اعتماد کی علامت ہے۔
خودمختاری اور اقتصادی بحالی کا امتزاج
عراق کی سیکیورٹی اور توانائی پالیسی میں یہ تبدیلی اس کے مضبوط ہوتے عزم کو ظاہر کرتی ہے کہ وہ اپنی ترقی کی سمت خود طے کرے گا۔ اب غیر ملکی سرمایہ کاری کے معاہدے — جیسے ایکسون موبل کا مجنون آئل فیلڈ منصوبہ — بغداد کی شرائط پر طے پاتے ہیں، تاکہ بیرونی سرمایہ براہِ راست ملکی ترقی اور خودکفالت میں معاون بنے۔
گزشتہ دو برسوں میں عراق نے چیورون، بی پی اور ٹوٹل انرجیز جیسی کمپنیوں کے ساتھ بھی شراکتی منصوبے دوبارہ فعال کیے ہیں، جن میں 27 ارب ڈالر کا ٹوٹل انرجیز ’’گیس گروتھ انٹیگریٹڈ پروجیکٹ‘‘ (GGIP) خاص طور پر نمایاں ہے۔ یہ منصوبہ گیس کے ضیاع کے خاتمے، ملکی توانائی پیداوار میں اضافہ اور پائیدار برآمدی ڈھانچے کی تعمیر کے لیے سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔
ایکسون موبل کی مجنون فیلڈ میں ممکنہ واپسی اب عراق کے لیے انحصار کی علامت نہیں بلکہ ایک نئے مرحلے کی نشاندہی کرتی ہے، ایک ایسا ملک جو اپنے وسائل پر خود اختیار حاصل کر رہا ہے، عالمی تعلقات کو توازن میں لا رہا ہے اور علاقائی و بین الاقوامی سطح پر ایک خودمختار طاقت کے طور پر اپنی شناخت مستحکم کر رہا ہے۔