مقبوضہ بیت المقدس (مشرق نامہ) – اسرائیلی قابض افواج نے بدھ کے روز مقبوضہ مغربی کنارے اور القدس کے مختلف علاقوں میں وسیع پیمانے پر چھاپے مارے، درجنوں فلسطینیوں کو گرفتار کیا، گھروں پر حملے کیے، اور مسجد الاقصیٰ میں انتہا پسند آبادکاروں کی اشتعال انگیز دراندازی کو تحفظ فراہم کیا۔
اسلامی اوقاف کے مطابق، تقریباً 1300 اسرائیلی آبادکاروں نے فوجی سیکیورٹی کے سخت حصار میں باب المغاربہ کے راستے مسجد الاقصیٰ پر دھاوا بولا اور صحنوں میں تلمودی رسومات ادا کیں۔ یہ دراندازی یہودی تہوار سوکوت کے دوسرے دن کے موقع پر کی گئی۔
اس دوران، آبادکاروں نے فوجی نگرانی میں مسجد کے صحنوں میں اشتعال انگیز رقص اور نعرے بازی بھی کی۔
اسرائیلی پولیس کے وزیر ایتامار بن گویر نے بھی بدھ کی صبح سخت سیکیورٹی حصار میں مسجد الاقصیٰ میں داخل ہو کر مذہبی رسومات انجام دیں۔
فلسطینی مزاحمت کی مذمت
حماس نے بن گویر کے اس اقدام کو ’’منصوبہ بند اشتعال انگیزی‘‘ قرار دیا، جو کہ پہلے الاقصیٰ قتل عام کی سالگرہ کے موقع پر جان بوجھ کر کی گئی۔
یہ قتل عام 8 اکتوبر 1990 کو پیش آیا تھا جب اسرائیلی فوج نے مسجد الاقصیٰ کے صحن میں فلسطینی نمازیوں پر فائرنگ کی تھی، جس کے نتیجے میں 17 فلسطینی شہید اور 150 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔
حماس نے بیان میں کہا کہ یہ اقدام خطرناک اشتعال انگیزی ہے، جس کا مقصد مسجد الاقصیٰ میں وقتی اور مکانی تقسیم کو مضبوط کرنا اور صہیونی یہودیت سازی کے منصوبوں کو آگے بڑھانا ہے تاکہ مسجد پر مکمل قبضہ حاصل کیا جا سکے۔
اردن کی سخت مذمت
اردن کی وزارتِ خارجہ نے بھی ایتامار بن گویر اور انتہا پسند آبادکاروں کی مسجد الاقصیٰ میں دراندازی کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور اسے مقدس مقام کی حرمت کی صریح خلاف ورزی قرار دیا۔
دوسری جانب، اسرائیلی پولیس نے باب الاسباط کے اطراف میں صبح سویرے سے ہی بھاری نفری تعینات کر رکھی تھی۔
مغربی کنارے میں چھاپے، گرفتاریاں اور تشدد
ادھر مغربی کنارے کے جنوبی شہر الخلیل میں سینکڑوں اسرائیلی آبادکاروں نے مسجد ابراہیمی پر دھاوا بولا۔ اسی دوران قابض فوج نے فجر کے وقت العروب کیمپ پر چھاپہ مار کر متعدد فلسطینیوں کو حراست میں لے لیا، جنہیں مار پیٹ کر ہاتھ باندھ دیے گئے اور آنکھوں پر پٹیاں باندھی گئیں۔
قابض افواج نے العروب یوتھ سینٹر کو عارضی تفتیشی مرکز میں تبدیل کر دیا، جہاں فیلڈ انٹروگیشن کے بعد کچھ قیدیوں کو رہا کر دیا گیا۔ اس دوران فجر کی نماز کے بعد مسجد سے نکلنے والے نمازیوں پر بھی فائرنگ کی گئی، تاہم کوئی جانی نقصان رپورٹ نہیں ہوا۔
چھاپے کے بعد شمالی الخلیل کے تعلیمی ڈائریکٹر جنرل بسام جابر نے اعلان کیا کہ طلبہ کی سلامتی کے پیش نظر علاقے کے تمام اسکول جمعرات تک بند رہیں گے۔
اسی علاقے میں تَرقومیہ کے مقام پر ایک 24 سالہ فلسطینی نوجوان کو فائرنگ کر کے زخمی کر دیا گیا، جب کہ بیت امر میں قابض فوج نے فلسطینی بچے محمد احمد العلامی کو گرفتار کر کے اس کی موٹر سائیکل ضبط کر لی۔
رام اللہ میں ایک نوجوان کو بیت عور التحتا میں گھر پر چھاپے کے دوران گرفتار کیا گیا، جبکہ حزما (شمال مشرقی القدس) میں چار فلسطینیوں کو حراست میں لیا گیا۔ بیت فجار (جنوبی بیت لحم) سے ایک سابق قیدی کو بھی دوبارہ گرفتار کیا گیا۔
نابلس کے قریب مدامہ گاؤں میں ایک دکاندار اور اس کے بیٹے کو، جبکہ بیِتا کے رہائشی اورخان حمیّل کو بھی گرفتار کیا گیا — وہ نوجوان جس نے تین سال قبل جھڑپوں میں اپنا ایک ہاتھ اور آنکھ کھو دی تھی۔
طولکرم میں بھی مختلف محلوں میں چھاپوں کے دوران دو فلسطینی نوجوانوں کو حراست میں لیا گیا۔
قبضے اور زمینوں کی چوری کی مسلسل مہم
یہ تمام کارروائیاں اس وسیع اسرائیلی مہم کا حصہ ہیں جس کے تحت مغربی کنارے میں چھاپوں، گرفتاریوں اور نقل و حرکت پر پابندیوں میں حالیہ ہفتوں کے دوران نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
رائٹرز کے مطابق، صہیونی حکومت نے قلقیلیہ کے مشرق میں واقع کفر قدوم گاؤں کی 35 دونم زمین پر قبضے کی منظوری دی ہے تاکہ وہاں 58 نئے بستی یونٹ تعمیر کیے جا سکیں۔
اسی طرح رام اللہ کے مغرب میں واقع رَنتیس کے علاقے میں قابض فوج نے فلسطینی کسانوں کو اپنی زیتون کی کھیتوں تک جانے سے روک دیا اور انہیں بتایا کہ اب ان زمینوں تک رسائی کے لیے ایک خصوصی ’’اجازت نامہ‘‘ درکار ہوگا — یہ پالیسی اسرائیلی نسل پرست نظام کی عکاس ہے جس کے تحت فلسطینیوں کو اپنی زمینوں سے کاٹ کر قبضے اور الحاق (Annexation) کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔