مانیٹرنگ ڈیسک (مشرق نامہ)بدھ کے روز سونے کی قیمت پہلی مرتبہ 4,000 ڈالر کی حد عبور کر گئی، کیونکہ سرمایہ کاروں نے امریکہ میں شرحِ سود میں ممکنہ کمی اور امریکی حکومت کے جزوی بند ہونے کے خدشات کے پیشِ نظر محفوظ سرمایہ کاری کے اس ذریعہ میں بڑے پیمانے پر سرمایہ منتقل کیا۔
قیمتی دھات میں یہ تیزی ایسے وقت میں آئی ہے جب ٹیکنالوجی سے منسلک کمپنیوں کے حصص میں غیر معمولی اضافہ نے بعض اسٹاک مارکیٹوں کو ریکارڈ سطحوں تک پہنچا دیا ہے، جس سے سرمایہ کاروں کے درمیان ممکنہ "اثاثہ جاتی بلبلے” (asset bubble) کی بحث چھڑ گئی ہے۔
سال کے آغاز سے اب تک سرمایہ کار مسلسل سونا خرید رہے ہیں، جس کی قیمت 50 فیصد سے زیادہ بڑھ چکی ہے۔ اس رجحان کی وجوہات میں عالمی معاشی غیر یقینی صورتحال، ڈونلڈ ٹرمپ کی تجارتی جنگ، اور مختلف جغرافیائی سیاسی بحران شامل ہیں۔
اس ہفتے سونے کی کشش میں مزید اضافہ فرانس کی سیاسی ہلچل سے ہوا، جہاں وزیرِاعظم نے استعفیٰ دے دیا، اور صدر ایمانوئل میکرون کے سابق وزیرِاعظم نے انہیں بھی مستعفی ہو کر قبل از وقت انتخابات کرانے پر زور دیا۔
غیر یقینی حالات میں ہمیشہ محفوظ پناہ گاہ سمجھے جانے والا سونا بدھ کو 4,006.68 ڈالر فی اونس کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا، حالانکہ گزشتہ چند دنوں سے امریکی ڈالر دیگر کرنسیوں کے مقابلے میں مضبوط ہو رہا ہے۔ چاندی کی قیمت بھی اپنی ریکارڈ سطح کے قریب جا پہنچی۔
امریکی حکومت کے کچھ حصوں کی بندش نے سرمایہ کاروں کی بے چینی میں اضافہ کیا ہے، کیونکہ اہم اقتصادی اعداد و شمار — بشمول روزگار سے متعلق ڈیٹا — ملتوی کر دیے گئے ہیں، جس سے فیڈرل ریزرو کے لیے شرحِ سود پر فیصلے مشکل ہو گئے ہیں۔
نیشنل آسٹریلیا بینک کے تجزیہ کار ٹیلر نیوجنٹ نے لکھا:
“سونے کی قیمتوں میں تیزی کا سہرا ایکسچینج ٹریڈڈ فنڈز میں بڑھتے سرمائے اور مرکزی بینکوں کی خریداری کو جاتا ہے، خاص طور پر چین کی جانب سے مضبوط طلب کے ساتھ، کیونکہ سیاسی، معاشی اور افراطِ زر کے خدشات کے ماحول میں سونا فائدہ اٹھا رہا ہے۔”
جبکہ سونا ریکارڈ بلندیوں کو چھو رہا تھا، ایشیائی اسٹاک مارکیٹیں نسبتاً محتاط رہیں، کیونکہ مصنوعی ذہانت (AI) میں کھربوں ڈالر کی سرمایہ کاری پر سوالات اٹھنے لگے۔
AI کے عروج نے کئی انڈیکسز اور کمپنیوں کو ریکارڈ سطحوں پر پہنچا دیا ہے — جس میں چِپ بنانے والی کمپنی Nvidia بھی شامل ہے، جس کی مارکیٹ ویلیو 4 ٹریلین ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے۔
تاہم، جب رپورٹ سامنے آئی کہ Oracle کمپنی کی کلاؤڈ کمپیوٹنگ کے منافع کی شرح توقع سے بہت کم ہے، تو وال اسٹریٹ کی تینوں بڑی انڈیکسز گر گئیں۔
SPI ایسٹ مینجمنٹ کے سٹیفن اینس نے لکھا:
“ایک ایسی مارکیٹ میں جو ’کامل کارکردگی‘ پر قیمت لگائے بیٹھی ہے، نقدی کے بہاؤ میں کسی بھی تاخیر — چاہے عارضی ہی کیوں نہ ہو — سرمایہ کاروں کو محتاط کر دیتی ہے۔”
انہوں نے مزید کہا، “تاجروں نے وضاحت کا انتظار نہیں کیا؛ انہوں نے فوراً اپنی پوزیشنز بیچنا شروع کر دیں۔ Oracle کی خبر نے پارٹی ختم نہیں کی، مگر یقیناً ماحول سنجیدہ کر دیا۔”
ایشیا میں ٹیکنالوجی کمپنیوں کے حصص میں نمایاں فروخت ہوئی، جو حالیہ مہینوں میں تیزی سے بڑھ رہے تھے۔ ہانگ کانگ اور تائی پے کی مارکیٹوں میں سب سے زیادہ کمی دیکھی گئی، جبکہ سڈنی اور سنگاپور میں بھی گراوٹ آئی۔
دوسری جانب ٹوکیو کی مارکیٹ معمولی مثبت رہی، کیونکہ تاجر اس امید میں ہیں کہ کاروبار دوست قدامت پسند سانا تاکائچی کی حکمران جماعت کی قیادت میں کامیابی معیشت کو سہارا دینے کے لیے مزید محرک اقدامات اور مالیاتی نرمی کا باعث بنے گی۔
ویلنگٹن، منیلا اور جکارتہ کی مارکیٹیں بھی معمولی اضافہ کے ساتھ بند ہوئیں۔