مانیٹرنگ ڈیسک (مشرق نامہ) – ایک ایسا آئل ٹینکر جو باقاعدگی سے اسرائیل کو خام تیل پہنچاتا ہے، ترک بندرگاہ جیحان سے ایک ’’نامعلوم منزل‘‘ کی جانب روانہ ہونے والا ہے۔ مڈل ایسٹ آئی کے مطابق، فلسطینی یوتھ موومنٹ اور نو ہاربر فار جینوسائیڈ کے محققین نے تجارتی اور شپنگ ڈیٹا کے ذریعے تصدیق کی ہے کہ نِسوس ٹینوس نامی یہ جہاز 4 اکتوبر کو جیحان بندرگاہ پر لنگر انداز ہوا، جہاں اس نے 33,830 ٹن خام تیل لوڈ کیا، اور وہ 6 اکتوبر کو صبح 6 بج کر 38 منٹ پر روانہ ہونے والا ہے۔
اگرچہ اس کی حتمی منزل فی الحال نامعلوم ہے، مگر سیٹلائٹ تصاویر اور آٹومیٹک آئیڈنٹیفکیشن سسٹم (AIS) — جو جہازوں کی نقل و حرکت کو ٹریک کرتا ہے — سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کے پچھلے دونوں سفر اسرائیل کے لیے خام تیل کی ترسیل پر مشتمل تھے۔
ڈیٹا کے مطابق، یہ ٹینکر 23 ستمبر کو جیحان سے روانہ ہوا اور 25 ستمبر کو اسرائیلی بندرگاہ اشکلون پہنچا۔ اس سے قبل 10 ستمبر کو اس نے روس کے نوووروسیسک سے سفر کیا اور 20 ستمبر کو اسرائیل پہنچا تھا۔
جیحان، بی پی کی ملکیت والے باکو-تبلیسی-جیحان (BTC) پائپ لائن کا آخری اسٹیشن ہے، جو آذربائیجان سے خام تیل ترکی لاتا ہے۔ یہ تیل جیحان کے حیدر علییف ٹرمینل سے اسرائیل بھیجا جاتا ہے، جو اسرائیل کی کل تیل درآمدات کا تقریباً 30 فیصد بنتا ہے۔
اسرائیلی جنگی طیاروں کے ایندھن کا ذریعہ
تحقیقاتی رپورٹ اینرجی ایمبارگو فار فلسطین کے مطابق، BTC پائپ لائن سے آنے والا خام تیل اسرائیل میں ریفائن ہو کر اس کے جنگی طیاروں کے لیے ایندھن میں تبدیل کیا جاتا ہے۔ رپورٹ میں خبردار کیا گیا کہ اگر عالمی عدالت انصاف (ICJ) اسرائیل کو غزہ میں نسل کشی کا مرتکب قرار دیتی ہے، تو ترکی اپنی ذمہ داری پوری نہ کرنے پر قصوروار ٹھہر سکتا ہے۔
پچھلے کئی مواقع پر، جب یہ جہاز اسرائیل کے لیے تیل لے کر گیا، اس نے بندرگاہ سے نکلتے ہی اپنا AIS ٹریکر بند کر دیا، تاکہ اس کے سفر کا ریکارڈ عام تجارتی نظام میں نہ آئے۔
فلسطینی یوتھ موومنٹ کے ایک محقق کے مطابق٬ اسرائیل اپنی فوج کو ایندھن فراہم نہیں کر سکتا اگر اسے ترکی کی بندرگاہوں سے تیل کی یہ بھاری ترسیل نہ ملے۔
ٹریکر بند، مگر نگرانی جاری
اگرچہ جہاز کا ٹریکر بند ہو جاتا ہے، محققین پھر بھی سیٹلائٹ تصاویر اور کاروباری ٹریڈنگ ڈیٹا کے ذریعے اس کے سفر کا سراغ لگاتے ہیں۔ وہ جہاز کے ’’ڈرافٹ‘‘ یعنی وزن اور گہرائی کی پیمائش سے یہ طے کرتے ہیں کہ جہاز نے کہاں تیل لوڈ یا ان لوڈ کیا۔
جب نِسوس ٹینوس نے 23 ستمبر کو جیحان سے 15.6 میٹر کے ڈرافٹ کے ساتھ روانگی کی تو اس نے اپنی منزل پورٹ سعید، مصر ظاہر کی۔ مگر اگلے ہی دن اس نے اپنا ٹریکر بند کر دیا اور جنوبی سمت حیفا کے قریب پہنچا۔ 26 ستمبر کی سیٹلائٹ تصاویر سے واضح ہوا کہ جہاز دراصل اشکلون میں لنگر انداز تھا، اور تین دن بعد شمال کی طرف واپسی پر اس کا ڈرافٹ 9.6 میٹر ہو گیا، جو ظاہر کرتا ہے کہ اس نے اپنا تیل وہاں اتار دیا تھا۔
ایک جہاز نہیں، مسلسل ترسیل
محققین نے شبہ ظاہر کیا کہ کیمولوس (Kimolos) نامی ایک اور جہاز نے بھی یہی طریقہ اپنایا — 27 ستمبر کو جیحان سے روانہ ہوا، ’’پورٹ سعید‘‘ کو منزل بتایا، ٹریکر بند کیا، اور چند روز بعد اشکلون میں دیکھا گیا۔
یہ جہاز ان 36 جہازوں میں شامل ہے جو نو ہاربر فار جینوسائیڈ کی بلیک لسٹ میں درج ہیں — وہ فہرست جن میں ایسے جہاز شامل ہیں جو غزہ میں جاری اسرائیلی نسل کشی کے دوران اس کو ایندھن اور ہتھیار پہنچاتے رہے ہیں۔
تجارتی پابندیوں کے باوجود خفیہ تجارت
اگرچہ ترکی نے مئی 2024 میں اسرائیل پر تجارتی پابندی عائد کی تھی، مگر اسٹاپ فیولنگ جینوسائیڈ مہم کی رپورٹ کے مطابق، دونوں ممالک کے درمیان خام تیل کی ’’باقاعدہ ترسیل‘‘ جاری رہی۔
تازہ تحقیق سے ظاہر ہوا ہے کہ جیحان سے اسرائیل کو تیل کی فراہمی نہ صرف برقرار ہے بلکہ ماہانہ کئی مرتبہ ہو رہی ہے۔ محققین کے مطابق، یہ صرف ایک نہیں بلکہ درجنوں ترسیلات ہیں، جو سینکڑوں ہزار ٹن تیل پر مشتمل ہوتی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ نِسوس ٹینوس کو بندرگاہ پر اجازت دینا ترکی کی جانب سے ہالینڈ کے شہر دی ہیگ میں جولائی میں کیے گئے عہد کی خلاف ورزی ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ کوئی ملک ایسے جہازوں کو اپنی بندرگاہ استعمال نہیں کرنے دے گا جن سے اسرائیل کو ایندھن یا جنگی سامان پہنچنے کا خطرہ ہو۔
ترکی کی تردید
ترک وزارتِ توانائی نے بارہا اس بات کی تردید کی ہے کہ مئی کے بعد اسرائیل کے لیے تیل بردار کوئی جہاز جیحان سے روانہ ہوا ہو۔ وزارت کے مطابق، BTC پائپ لائن کے ذریعے برآمد کرنے والی کمپنیاں ترکی کے فیصلے کی مکمل پابندی کر رہی ہیں اور اسرائیل کے ساتھ کسی قسم کی تجارت نہیں کر رہیں۔
تاہم، رائٹرز نے اگست میں رپورٹ کیا تھا کہ ترکی کے بندرگاہی حکام نے شپنگ ایجنٹس سے ’’تحریری یقین دہانی‘‘ مانگنی شروع کر دی ہے کہ ان کے جہازوں کا اسرائیل سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ ہدایات زبانی طور پر دی گئیں، مگر کوئی باضابطہ حکومتی اعلامیہ جاری نہیں کیا گیا۔
ترکی اسرائیل کا پانچواں بڑا برآمد کنندہ
اقوامِ متحدہ کے انٹرنیشنل ٹریڈ اسٹیٹسٹکس ڈیٹابیس کے مطابق، 2024 میں ترکی اسرائیل کا پانچواں بڑا تجارتی شراکت دار تھا، حالانکہ انقرہ نے ’’مکمل تجارتی پابندی‘‘ کا اعلان کیا ہوا تھا۔
ستمبر 2024 میں ترک ایکسپورٹرز اسمبلی کے اعداد و شمار سے بھی انکشاف ہوا کہ اسرائیل کو ترکی کی برآمدات پابندی کے بعد بھی جاری رہیں، البتہ یہ تجارت یونان جیسے تیسرے ممالک کے ذریعے انجام دی جا رہی تھی۔
یہ انکشاف اس وقت سامنے آیا ہے جب ترکی نے اسرائیل کے خلاف سخت بیانات اور سفارتی اقدامات کے باوجود، درپردہ تجارتی روابط برقرار رکھے ہوئے ہیں — وہی روابط جن کے سہارے اسرائیل اپنے جنگی مشین کو ایندھن فراہم کر رہا ہے۔