تہران / بیروت (مشرق نامہ) – المیادین کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے چیئرمین غسان بن جدو کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں ایران میں حزب اللہ کے نمائندے سید عبداللہ صفی الدین نے تنظیم کی داخلی ساخت، قیادت کے تسلسل، اور اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ اس کے مضبوط تعلقات پر روشنی ڈالی۔
سید صفی الدین نے واضح کیا کہ ایران نے کبھی بھی حزب اللہ کے عسکری یا عملیاتی فیصلوں میں مداخلت نہیں کی۔ ان کے مطابق، رہبرِ معظم انقلاب اسلامی نے کبھی کسی عسکری کارروائی میں مداخلت نہیں کی۔ وہ ہمیشہ سید حسن نصراللہ کو ایسے تمام فیصلوں کا واحد ذمہ دار سمجھتے ہیں۔
انہوں نے یاد دلایا کہ جولائی 2006 کی جنگ کے دوران جب صہیونی دشمن نے لبنان پر جارحیت کی، رہبرِ معظم اس وقت مشہدِ مقدس میں موجود تھے۔ انہوں نے قومی سلامتی کونسل اور اعلیٰ حکام کو طلب کیا اور کہا کہ جنگ شروع ہو چکی ہے۔ پھر انہوں نے ہدایت دی کہ جا کر سید حسن اور حزب اللہ سے پوچھو کہ انہیں مزاحمت، بقا اور فتح کے لیے کیا درکار ہے۔
سید صفی الدین کے مطابق، رہبرِ انقلاب نے حزب اللہ کے فیصلوں پر کوئی سوال نہیں اٹھایا بلکہ پورا ایرانی ریاستی نظام حزب اللہ کی مدد کے لیے متحرک کر دیا۔
انہوں نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آیت اللہ خامنہ ای نے قومی سلامتی کونسل کا اجلاس بلایا، اور پورا ایران حزب اللہ کے لیے امدادی قوت میں بدل گیا۔ وزراء اور حکام مجھ سے رابطہ کر کے پوچھتے تھے کہ صحت، سول ڈیفنس یا رہائش میں کس چیز کی ضرورت ہے۔ ہر شعبہ مدد کے لیے سرگرم تھا۔
‘اسرائیلی جارحیت اپنے مقاصد میں ناکام رہی’
حالیہ حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے صفی الدین نے کہا کہ صہیونی ریاست اپنے کسی بھی ہدف میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ ان کے بقول، جو کوئی موجودہ صورتحال کا مشاہدہ کرے، وہ دیکھے گا کہ لبنان، فلسطین، یمن اور ایران کی مزاحمتی تنظیمیں بدستور قائم ہیں۔ دشمن کے حملے نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ رہنماؤں اور مزاحمتی شخصیات کو نشانہ بنانے سے نہ تو یہ تحریکیں ختم ہوئیں اور نہ ہی ختم ہوں گی۔ حتیٰ کہ خود صہیونی ریاست کے اندر ناکامی کا اعتراف بڑھ رہا ہے۔ وہ قائدین کو شہید کر رہے ہیں لیکن مزاحمت کو مٹا نہیں سکے۔
صفی الدین نے مزید کہا کہ مزاحمتی اداروں کی بحالی اور عوامی حمایت میں اضافے نے امید کا دائرہ وسیع کر دیا ہے، اور اب دنیا بھر میں صہیونی ریاست کے خلاف سیاسی و عوامی بیداری میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
ایران کا مقصد خطے کا دفاع ہے
لبنان میں ایران کے کردار پر قیاس آرائیوں کو رد کرتے ہوئے صفی الدین نے کہا کہ ایران کا مقصد ہمیشہ یہی رہا ہے کہ لبنانی خود اپنی حفاظت کریں۔ ایران نے کبھی لبنان میں اثر و رسوخ یا فوجی اڈے قائم کرنے کی نیت سے قدم نہیں رکھا۔ مزاحمت کے ابتدائی سالوں میں چند تربیتی ماہرین بھیجے گئے تھے، اور آج صرف مشیر موجود ہیں، جیسا کہ کسی بھی ملک میں ہوتا ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ ایران کا مؤقف بالکل دوٹوک ہے٬ اسلامی دنیا کے تمام مسائل کی جڑ صہیونی ریاست اور اس کے مغربی سرپرست ہیں۔ اس کی تباہ کاری صرف فلسطین تک محدود نہیں بلکہ پورے خطے میں پھیلی ہے، یہاں تک کہ انقلابِ اسلامی کی کامیابی سے پہلے ایران تک پہنچی۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیلی وزیراعظم کے حالیہ بیانات اور نقشے ظاہر کرتے ہیں کہ دشمن کی خواہش پورے خطے پر قبضے کی ہے، اور ایران کے نزدیک “جو بھی اس جارحیت کا مقابلہ کرے، وہ دوست، بھائی اور حلیف ہے۔”
اعتماد پر مبنی تعلقات
سید صفی الدین نے سید حسن نصراللہ اور آیت اللہ خامنہ ای کے تعلق کو “مکمل اعتماد اور برادرانہ محبت پر مبنی” قرار دیا، جو ان کے مطابق “باپ بیٹے کے تعلق سے بھی زیادہ مضبوط” ہے۔
انہوں نے بتایا کہ رہبرِ معظم سید نصراللہ کے دورۂ ایران سے پہلے اور بعد میں ہمیشہ اطمینان اور اعتماد کا اظہار کرتے ہیں، اور کووِڈ وبا کے دوران بھی دونوں رہنماؤں کی نجی ملاقات ہوئی تھی۔
انٹرویو کے اختتام پر انہوں نے کہا کہ میں بطور حزب اللہ کے نمائندے کے گواہی دیتا ہوں کہ آج تک ایران نے حزب اللہ کے کسی رکن، رہنما یا ادارے سے ایران سے متعلق کوئی ذاتی خدمت نہیں مانگی۔ ایران صرف ان لوگوں کی حمایت کرتا ہے جو اپنے عوام اور اپنی عزت کا دفاع کرتے ہیں۔