واشنگٹن (مشرق نامہ) – امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے لبنان کی سکیورٹی فورسز کے لیے 23 کروڑ ڈالر کی امداد کی منظوری دے دی ہے، جس کا مقصد حزب اللہ کے ہتھیار چھڑوانے میں لبنانی حکام کی مدد کرنا بتایا گیا ہے۔ یہ اقدام لبنان کی مزاحمتی قوت کو کمزور کرنے اور مشرقِ وسطیٰ میں امریکی بالادستی کو مضبوط کرنے کی پالیسی کے تسلسل کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
امریکی امداد کی تفصیل اور وقت
ایک لبنانی سرکاری ذریعے کے مطابق، اس امدادی پیکیج میں لبنانی افواج (LAF) کے لیے 19 کروڑ ڈالر اور اندرونی سلامتی فورسز (ISF) کے لیے 4 کروڑ ڈالر شامل ہیں۔ یہ فنڈ امریکی مالی سال کے اختتام، یعنی 30 ستمبر سے قبل جاری کیے گئے۔
ایک ڈیموکریٹک کانگریسی معاون نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ لبنان جیسے چھوٹے ملک کے لیے یہ رقم واقعی بہت اہم ہے۔
امریکی موقف اور اقوامِ متحدہ کی قرارداد 1701
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ یہ امداد لبنانی فورسز کی مدد کے لیے ہے تاکہ وہ ملک بھر میں لبنانی خودمختاری کو یقینی بنائیں اور اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 1701 پر مکمل عمل درآمد کریں۔
یاد رہے کہ قرارداد 1701 اگست 2006 میں اسرائیلی جارحیت کے خاتمے کے لیے منظور کی گئی تھی۔
حزب اللہ اور اس کے اتحادیوں کا کہنا ہے کہ لبنان نے قرارداد کے تمام تقاضے پورے کیے ہیں، اور لیتانی دریا کے شمال سے تمام مسلح افراد کو ہٹا دیا گیا ہے۔ تنظیم کے مطابق، لبنانی حکام کے ساتھ رابطے میں رہتے ہوئے جنوبی علاقوں میں عسکری ڈھانچے کے خاتمے کی نگرانی کا عمل جاری ہے۔
لبنانی صدر جوزف عون بھی متعدد مواقع پر یہ واضح کر چکے ہیں کہ 27 نومبر 2024 کے اسرائیل کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کی تمام شقوں پر لبنان نے عمل کیا ہے، جبکہ اسرائیل نے اب تک اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں۔
لبنانی حکومت کے فیصلے اور حزب اللہ کا ردعمل
تاہم، 5 اگست کو صدر جوزف عون اور وزیرِاعظم نواف سلام نے لبنانی فوج کو ہدایت دی کہ وہ 2025 کے اختتام تک تمام ہتھیار ریاستی کنٹرول میں لانے کا منصوبہ تیار کرے۔
حزب اللہ اور اس کی اتحادی امل تحریک نے اس فیصلے کو آئینی طور پر باطل قرار دیا، کیونکہ یہ فیصلہ شیعہ وزراء اور پارلیمان میں شیعہ نمائندوں کی منظوری کے بغیر کیا گیا۔ لبنان کے مذہبی نظام کے تحت کوئی بھی بڑا حکومتی فیصلہ تمام فرقوں کی نمائندگی رکھنے والے وزراء کی حمایت کے بغیر معتبر نہیں ہوتا۔
یہ معاملہ 5 ستمبر کو ایک وزارتی اجلاس کے دوران مزید پیچیدہ ہو گیا، جب حکومت — اب بھی شیعہ نمائندگی کے بغیر — نے کہا کہ کسی بھی غیر مسلحی منصوبے کو اسرائیلی انخلا اور لبنانی خودمختاری کے احترام سے مشروط کیا جائے گا۔ اس سے لبنان کے قومی موقف کو مزید تقویت ملی کہ ملک کی سالمیت کسی بیرونی دباؤ کے تحت کمزور نہیں کی جا سکتی۔
داخلی سلامتی اور امریکی حکمتِ عملی
رائٹرز کے مطابق، ایک لبنانی ذریعے نے بتایا کہ امدادی پیکیج کا ایک حصہ اندرونی سلامتی فورسز (ISF) کی ذمے داریوں میں توسیع کے لیے استعمال کیا جائے گا تاکہ لبنانی فوج سرحدی نگرانی اور اہم اسٹریٹجک مقامات کے تحفظ پر توجہ مرکوز کر سکے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ امریکی اقدام لبنان کے اندرونی معاملات میں واشنگٹن کی مسلسل مداخلت کی نشاندہی کرتا ہے، جو ریاستی اداروں کی مضبوطی کے نام پر لبنانی مزاحمت کو کمزور کرنے اور خطے میں امریکی اثرورسوخ بڑھانے کی کوشش ہے۔
یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ حزب اللہ اور اس کے اتحادی مزاحمتی گروہوں نے لبنان کی خودمختاری کے تحفظ میں فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے۔ حزب اللہ نے 25 مئی 2000 کو جنوبی لبنان کو آزاد کرایا، 2006 کی اسرائیلی جنگ میں ملک کے دفاع کی ذمہ داری سنبھالی، لبنانی فوج کے ساتھ مل کر مشرقی سرحدوں سے دہشت گرد گروہوں کا صفایا کیا، اور 2024 میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف ایک بڑے حملے کو ناکام بنایا۔