دمشق (مشرق نامہ) – شامی فوج اور امریکہ کے حمایت یافتہ شامی ڈیموکریٹک فورسز (ایس ڈی ایف) کے درمیان حلب شہر میں ہونے والی جھڑپوں میں ایک اہلکار ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے، جس کے بعد دونوں فریقین نے دو علاقوں میں جنگ بندی پر اتفاق کر لیا ہے۔
ریاستی خبر رساں ادارے سانا کے مطابق، ایس ڈی ایف کے حملوں میں شامی داخلی سکیورٹی فورسز کے تین اہلکاروں سمیت کئی شہری زخمی ہوئے۔ یہ جھڑپیں شیخ مقصود اور الاشرفیہ کے محلوں میں ہوئیں، جہاں ایس ڈی ایف کے نشانے بازوں نے عمارتوں کی چھتوں پر پوزیشن سنبھال رکھی تھی اور فریقین نے بھاری مشین گنوں اور مارٹر گولوں کا استعمال کیا۔
سانا نے ایک مقامی سکیورٹی ذریعے کے حوالے سے بتایا کہ جھڑپیں اس وقت شروع ہوئیں جب شامی وزارتِ دفاع نے اتوار کے روز کہا کہ شمال مشرقی علاقوں میں ایس ڈی ایف کے ساتھ محاذوں پر اس کی حالیہ نقل و حرکت کوئی نئی کارروائی نہیں بلکہ پہلے سے طے شدہ فوجی ازسرنو تعیناتی کا حصہ ہے۔
دوسری جانب، ایس ڈی ایف کے ترجمان فرہاد شامی نے ان حملوں سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ تنظیم کے شیخ مقصود اور الاشرفیہ میں کوئی دستے موجود نہیں۔ ان کے مطابق، شامی حکومت کے حامی گروہوں نے کرد علاقوں میں ٹینکوں کے ساتھ داخل ہونے کی کوشش کی، اور انہوں نے حکومت سے شہر پر عائد محاصرے کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔ شامی فوجی اقدامات کے بارے میں شامی نے خبردار کیا کہ یہ رہائشیوں کے مصائب میں مزید اضافہ کریں گے۔
حلب کے گورنر عزام الغریب نے شہریوں سے اپیل کی کہ وہ گھروں میں رہیں اور ان علاقوں سے دور رہیں جہاں جھڑپیں ہو رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکام حالات کو پرامن بنانے اور جھڑپوں کے خاتمے کے لیے تمام فریقوں سے رابطے میں ہیں، اور شامی فوج کا کسی فوجی تصعید کا کوئی ارادہ نہیں۔
رائٹرز کے مطابق، سانا نے اطلاع دی کہ دونوں متنازعہ اضلاع میں ایک فائر بندی کا معاہدہ طے پا گیا ہے۔
برطانیہ میں قائم شامی آبزرویٹری برائے انسانی حقوق نے بتایا کہ دونوں علاقوں میں رابطے منقطع ہو گئے ہیں اور شامی فوج نے اضافی کمک کے ساتھ ان کا محاصرہ کر لیا ہے۔
ایس ڈی ایف اور شامی فوج کے درمیان حالیہ جھڑپوں نے مارچ میں نئی حکومت کے ساتھ طے پانے والے اس اہم انضمامی معاہدے پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں، جس کے تحت امریکی سرپرستی میں ایس ڈی ایف کو ریاستی اداروں میں ضم کیا جانا تھا۔
یہ معاہدہ بشارالاسد حکومت کے خاتمے کے بعد طے پایا تھا، جس کے تحت کرد قیادت میں قائم فورسز کو سرکاری اداروں میں شامل کیا جانا ہے، اور سال کے اختتام تک سرحدی گزرگاہیں، ایک ہوائی اڈہ اور تیل و گیس کے اہم ذخائر دمشق کے حوالے کیے جانے ہیں۔
تاہم اس منصوبے پر عمل درآمد تعطل کا شکار ہے اور دونوں فریق ایک دوسرے پر اشتعال انگیزی کے الزامات عائد کر رہے ہیں۔
واشنگٹن نے بھی کردوں پر زور دیا ہے کہ وہ دمشق کے ساتھ انضمام کے مذاکرات تیز کریں، جبکہ ترکی نے ایس ڈی ایف پر تاخیر کا الزام لگاتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اگر وہ دمشق کے ساتھ مفاہمت نہیں کرتی تو فوجی کارروائی کی جا سکتی ہے۔
دوسری جانب، شام نے پیر کے روز بشار الاسد کے بعد اپنی پہلی پارلیمانی انتخابات کے نتائج جاری کیے، جو تقریباً 14 سالہ خانہ جنگی کے بعد ملک کے نئے سیاسی مرحلے کی علامت ہیں۔ اتوار کو ہونے والے اس انتخاب میں تقریباً 6,000 مقامی نمائندوں نے پیشگی منظور شدہ فہرستوں سے امیدواروں کا انتخاب کیا، جس کے نتیجے میں 210 رکنی پارلیمان کی دو تہائی نشستوں کا فیصلہ ہوا۔ باقی ایک تہائی ارکان کا انتخاب صدر احمد الشراع بعد میں کریں گے۔