جمعہ, اکتوبر 10, 2025
ہومبین الاقوامیبھارت کے مختلف شہروں میں نسل کشی کیخلاف احتجاجی مظاہرے

بھارت کے مختلف شہروں میں نسل کشی کیخلاف احتجاجی مظاہرے
ب

نئی دہلی (مشرق نامہ) – بھارت کے کئی شہروں میں ہزاروں مظاہرین نے اسرائیل سے تعلقات منقطع کرنے کے مطالبے کے لیے سڑکوں پر نکل کر گرفتاریوں، تشدد اور حراست کے خطرے مول لیے۔ یہ احتجاج دنیا بھر میں غزہ میں جاری نسل کشی کے دو سال مکمل ہونے کی یاد کے طور پر منعقد کیے گئے۔

اتوار کو نئی دہلی، پٹنہ، ممبئی، پونے، حیدرآباد، وجے واڑہ اور وشاکھا پٹنم میں احتجاجی مظاہرے ہوئے۔

ریاست ہریانہ کے شہر روہتک میں کم از کم چھ مظاہرین کو حراست میں لیا گیا جنہیں مبینہ طور پر پولیس اور انتہاپسند غنڈوں نے تشدد کا نشانہ بنایا۔
رات ہونے تک خواتین کارکنان کو رہا کر دیا گیا، تاہم پیر کی دوپہر تک مرد مظاہرین اب بھی زیرِ حراست تھے۔

اکتوبر 2023 میں حماس کی قیادت میں اسرائیل پر ہونے والے حملوں کے بعد بھارت اسرائیل کے قریبی ترین اتحادیوں میں سے ایک کے طور پر ابھرا ہے۔ دہلی نے جنگ بندی کی متعدد قراردادوں پر ووٹنگ سے اجتناب کیا، بین الاقوامی فوجی پابندی کی اپیلوں کو نظرانداز کیا، اور ہیگ میں بین الاقوامی عدالتِ انصاف میں دائر نسل کشی کے مقدمے میں شامل ہونے سے انکار کیا۔

گزشتہ دو برسوں میں بھارتی ریاست اپنے اتحادی اسرائیل کو جنگی ڈرون، ہتھیاروں کے پرزے اور بم بھیجتی رہی ہے، جبکہ تقریباً 20,000 بھارتی شہری فلسطینی مزدوروں کی جگہ تعمیرات اور نگہداشت کے شعبوں میں کام کرنے کے لیے اسرائیل گئے ہیں۔

اگرچہ حالیہ دنوں میں سڑکوں پر نکلنے والے مظاہرین کی تعداد اٹلی اور اسپین جیسے ممالک میں جاری بڑے مظاہروں کے مقابلے میں نسبتاً کم ہے، تاہم کارکنوں کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے لیے بھارت کی حمایت کے خلاف ایک بڑی عوامی تحریک آہستہ آہستہ ابھر رہی ہے۔

مبصرین کے مطابق اتوار کو دہلی میں ہونے والا احتجاج اب تک کا سب سے بڑا مظاہرہ تھا۔

’بھارت فنڈ دیتا ہے، غزہ جلتا ہے‘

دارالحکومت میں سینکڑوں افراد تاریخی مقام جنتر منتر پر جمع ہوئے — جو 300 سال قدیم رصدگاہ ہے — جہاں مظاہرین نے کفایہ (فلسطینی رومال) پہنے یا اٹھائے ہوئے تھے اور ہاتھوں میں پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر لکھا تھا کہ بھارت فنڈ دیتا ہے، غزہ جلتا ہے۔

کئی افراد نے فلسطینی رنگوں — سرخ، سبز اور سیاہ — کے پیچ، لاکٹ اور بالیاں پہن رکھی تھیں۔
شدید گرمی کے باوجود مظاہرین کئی گھنٹوں تک نعرے لگاتے رہے، اسرائیل سے بھارت کے تعلقات کے خاتمے کا مطالبہ کرتے رہے، فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کے نغمے گاتے اور ان پر ڈھائے جانے والے مظالم کی کہانیاں سناتے رہے۔

حیدرآباد میں، سیکڑوں کارکن معروف احتجاجی مقام دھرنا چوک پر جمع ہوئے جہاں انہوں نے فلسطینی عوام سے اظہارِ یکجہتی کیا اور اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیا۔

نسل کشی کے آغاز سے اب تک غزہ میں کم از کم 2 لاکھ 40 ہزار فلسطینی جاں بحق یا زخمی ہو چکے ہیں۔

احتجاج کی منتظمین میں شامل پریاموادا شرما، جو تنظیم Indian People in Solidarity with Palestine سے وابستہ ہیں، نے Middle East Eye کو بتایا کہ مظاہرین نریندر مودی کی حکومت سے اسرائیل سے تعلقات منقطع کرنے، بھارتی کمپنیوں کو اسرائیلی اداروں میں سرمایہ کاری سے روکنے، اور ملک بھر میں پولیس اسٹیشنوں میں فلسطین نواز کارکنوں کے خلاف درج تمام مقدمات واپس لینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

بھارت میں فلسطین کے حق میں آواز بلند کرنے والے کارکن متعدد بار اسرائیل کی نسل کشی کی مخالفت پر تشدد، گرفتاری یا حراست کا سامنا کر چکے ہیں۔

دہلی کے احتجاج میں مظاہرین نے Middle East Eye سے بات کرتے ہوئے کہا کہ دو سال گزر جانے کے باوجود اسرائیل کے انسانیت سوز جرائم کو بیان کرنا ہی خود ایک المیہ ہے۔

سانیہ رحمانی، جو 22 سالہ ماحولیاتی کارکن ہیں، نے کہا کہ مجھے 2025 میں یہ وضاحت نہیں کرنی چاہیے کہ لوگوں کا قتل، بمباری، یا ان کا بنیادی انسانی ضرورتوں سے محروم ہونا کوئی غلط بات کیوں ہے۔
یہ بات تو واضح ہونی چاہیے کہ انسانوں کو جینے کا حق حاصل ہے۔

ایک اور مظاہر، سید ہادی، جو 21 سالہ طالب علم ہیں اور بھارتی زیرِ انتظام جموں و کشمیر کے پونچھ سے تعلق رکھتے ہیں، نے کہا کہ بطور کشمیری وہ فلسطینیوں کی جدوجہد سے گہری وابستگی محسوس کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جب دہلی میں Indians for Palestine یا BDS India جیسی تنظیمیں مظاہرے منعقد کرتی ہیں، تو ہمارا اخلاقی فرض بنتا ہے کہ ہم وہاں موجود ہوں اور اپنے ان بھائیوں کے لیے آواز اٹھائیں جو ہمارے جیسے ہی قبضے کا سامنا کر رہے ہیں۔

نسل کشی میں شمولیت

بھارت میں بڑھتی ہوئی احتجاجی لہر کے ساتھ ہی یہ سوالات بھی شدت اختیار کر رہے ہیں کہ بھارت اسرائیلی نسل کشی میں کس حد تک شریک ہے۔

ستمبر کے آخر میں تنظیم Centre for Financial Accountability (CFA) نے ایک رپورٹ جاری کی جس میں نتیجہ اخذ کیا گیا کہ بھارتی کارپوریشنز اور سرکاری ادارے اسرائیل کی جنگی معیشت کو سرمایہ کاری اور شراکت داری کے ذریعے سہارا دے رہے ہیں۔

رپورٹ کا عنوان تھا، منافع اور نسل کشی: اسرائیل میں بھارتی سرمایہ کاری
اس میں کہا گیا کہ بھارتی کمپنیاں دفاعی پیداوار، نگرانی کی ٹیکنالوجی اور زرعی منصوبوں کے شعبوں میں اسرائیلی معیشت سے بڑھتی ہوئی حد تک جڑ چکی ہیں۔

گروپ کے مطابق یہ تجارتی تعلقات اسرائیل کی غزہ میں جاری فوجی کارروائیوں اور مغربی کنارے و مقبوضہ گولان کی پہاڑیوں میں بستیوں کے پھیلاؤ میں بنیادی کردار ادا کر رہے ہیں۔

یہ رپورٹ اس وقت سامنے آئی جب بھارت نے اسرائیلی وزیرِ خزانہ بیزلیل سموتریچ کی میزبانی کی اور ایک دوطرفہ سرمایہ کاری معاہدے پر دستخط کیے۔
یہ معاہدہ سرمایہ کاروں کے اعتماد کو بڑھانے اور دونوں ممالک کے درمیان کاروباری لین دین کو آسان بنانے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔

مظاہرین کا کہنا تھا کہ مودی اور اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو کی انتہا پسند حکومتوں اور نظریات کے درمیان قربت کوئی تعجب کی بات نہیں۔

21 سالہ ہمَنگی، جنہوں نے اپنا صرف پہلا نام بتایا، نے کہا کہ ظاہر ہے کہ ہندوتوا اور صہیونیت کی پروپیگنڈا مشینری ایک دوسرے کے ساتھ قدم ملا کر چل رہی ہے۔
جو کچھ ہندوتوا نے کشمیر میں کیا اور جو کچھ صہیونیت وہاں کر رہی ہے، دونوں ہی قبضے کی مثالیں ہیں۔

اسی طرح رحمانی نامی 22 سالہ مظاہرہ کرنے والی نے کہا کہ یہ بات واضح ہے کہ فاشسٹ ہمیشہ فاشسٹوں کی حمایت کرتے ہیں اور ان کے نزدیک حکومت کا موقف عوامی جذبات کی نمائندگی نہیں کرتا۔

انہوں نے کہا کہ قائدین ملک نہیں بناتے، ہم بناتے ہیں۔
اسی لیے ہم یہاں موجود ہیں تاکہ یہ کہہ سکیں کہ حکومت کی یہ پالیسی ہمیں قبول نہیں۔ یہ حکومت میری نمائندہ نہیں۔

رحمانی نے مزید کہا کہ میں کبھی اپنے ملک کے ماضی کو نہیں بھول سکتی، جس نے دو سو سال غلامی کے بعد آزادی حاصل کی۔
میں یہ برداشت نہیں کر سکتی کہ میری حکومت کسی دوسرے کے استعماری قبضے کی حمایت کرے۔

مقبول مضامین

مقبول مضامین