جمعہ, اکتوبر 10, 2025
ہومبین الاقوامیفلسطین کو تسلیم نہ کرنے پر نیوزی لینڈ پر عالمی تنقید

فلسطین کو تسلیم نہ کرنے پر نیوزی لینڈ پر عالمی تنقید
ف

مانیٹرنگ ڈیسک (مشرق نامہ) – عالمی سطح پر فلسطینی ریاست کے باضابطہ اعتراف کی بڑھتی ہوئی لہر کے دوران نیوزی لینڈ کے اس فیصلے نے اندرونِ ملک اور بین الاقوامی سطح پر شدید تنقید کو جنم دیا ہے کہ وہ اب تک فلسطین کو تسلیم کرنے سے گریزاں ہے۔

ستمبر 2025 تک اقوامِ متحدہ کے 193 رکن ممالک میں سے 157 ممالک فلسطین کو تسلیم کر چکے ہیں۔ برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا کے حالیہ اعلانات نے دیگر ممالک پر دباؤ بڑھا دیا ہے کہ وہ بھی یہی قدم اٹھائیں۔ تاہم، وزیرِاعظم کرسٹوفر لکسن کے اُس بیان کے باوجود، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ فلسطین کو تسلیم کرنا ’’اگر نہیں تو کب‘‘ کا سوال ہے، نیوزی لینڈ نے فی الحال پیچھے رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔

اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں وزیرِخارجہ ونسٹن پیٹرز نے ’’دو ریاستی حل‘‘ کے لیے نیوزی لینڈ کے عزم کا اعادہ کیا، مگر فلسطین کو تسلیم کرنے سے گریز کیا۔

انہوں نے کہا کہ جب جنگ جاری ہے، حماس غزہ کی امرِواقعی حکومت ہے، اور مستقبل کے اقدامات واضح نہیں، تو فلسطین کی متوقع ریاست سے متعلق بہت سے سوالات اب بھی باقی ہیں، اس لیے اس وقت تسلیم کرنے کا اعلان دانشمندی نہیں ہوگی۔ پیٹرز کے بقول، قبل از وقت اعتراف جنگ بندی کی کوششوں میں رکاوٹ ڈال سکتا ہے۔

اندرونِ ملک ردِعمل اور سیاسی تناؤ

حکومت کے اعلان کے فوراً بعد ملک میں سخت ردِعمل سامنے آیا۔ اپوزیشن جماعتوں، انسانی حقوق کی تنظیموں اور مذہبی رہنماؤں نے اس فیصلے کی مذمت کی۔ آک لینڈ میں اینگلیکن اور کیتھولک چرچ کے مذہبی رہنماؤں نے امیگریشن وزیر کے دفتر کے سامنے خود کو زنجیروں سے باندھ کر احتجاج کیا۔

تنظیم جسٹس فار فلسطین نے حکومت کے رویے کو ’’قیادت کی شدید کمی‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ نیوزی لینڈ اپنی عالمی حیثیت کے بارے میں غیر یقینی کا شکار دکھائی دیتا ہے۔

سابق وزیرِاعظم ہیلن کلارک نے تبصرہ کیا کہ نیوزی لینڈ ’’تاریخ کے غلط رخ‘‘ پر کھڑا ہے۔ ان کے مطابق، جب دنیا کے زیادہ تر ممالک فلسطینی ریاست کو تسلیم کر رہے ہیں، تو نیوزی لینڈ کی ہچکچاہٹ اسے عالمی رجحان سے الگ کر رہی ہے۔

حکومت کا دفاعی مؤقف

ملکی سطح پر گرین پارٹی نے حکومت کے فیصلے کو ’’نیوزی لینڈ کی امن دوست ساکھ پر داغ‘‘ قرار دیا، جبکہ لیبر پارٹی نے اسے ’’شرمناک‘‘ کہا۔ لیبر پارٹی کے امورِ خارجہ کے ترجمان پینی ہینارے نے کہا کہ لکسن کے پاس درست موقف اختیار کرنے کا موقع تھا، مگر وہ ناکام رہے۔ فلسطین کو تسلیم کرنا اور اسرائیل پر پابندیاں عائد کرنا یہ واضح پیغام دیتا کہ نیوزی لینڈ انسانی جان، وقار اور بین الاقوامی قانون کی پامالی پر خاموش تماشائی نہیں بنے گا۔

حالیہ ہفتوں میں آک لینڈ کے مرکزی علاقے میں ہزاروں افراد نے حکومت کے خلاف احتجاجی مارچ کیا۔ اس کے باوجود لکسن کی قیادت میں حکومتی اتحاد نے اپنے مؤقف کا دفاع کیا۔ ریڈیو نیوزی لینڈ سے گفتگو میں لکسن نے کہا کہ نیوزی لینڈ غیر جانب دار ہے: ہم نہ فلسطین کے حامی ہیں، نہ اسرائیل کے؛ ہم دونوں کے دوست ہیں، اور امن کے حامی ہیں۔

وزیرِخارجہ پیٹرز کے ترجمان نے ایک مرتبہ پھر ’’دو ریاستی حل‘‘ کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ وقت کے انتخاب میں احتیاط ضروری ہے۔ ترجمان کے مطابق، ہمارا اختلاف صرف اس نکتے پر ہے کہ آیا موجودہ حالات میں فلسطین کو تسلیم کرنا دو ریاستی حل کے حصول میں کوئی عملی اور مثبت کردار ادا کرے گا یا نہیں۔

مقبول مضامین

مقبول مضامین