جمعہ, اکتوبر 10, 2025
ہومبین الاقوامیبنگلہ دیش سے کشیدگی نے بھارت کی ساڑھی صنعت کو جھٹکا دے...

بنگلہ دیش سے کشیدگی نے بھارت کی ساڑھی صنعت کو جھٹکا دے دیا
ب

مانیٹرنگ ڈیسک (مشرق نامہ) – بنگلہ دیش کی سیاسی کشیدگی نے بھارتی ساڑھی صنعت پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں، جس سے کچھ کاروباری افراد متاثر ہوئے ہیں جبکہ کچھ کو اس سے فائدہ بھی پہنچا ہے۔

بھارت کے مقدس شہر وارانسی کے تنگ و مصروف گلی کوچوں میں 55 سالہ محمد احمد انصاری اپنی زندگی کے بیشتر سال گزار چکے ہیں۔ یہ شہر بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی کا حلقۂ انتخاب بھی ہے اور اسے ملک کا روحانی دارالحکومت قرار دیا جاتا ہے۔

انصاری دہائیوں سے بنارسی ساڑھیاں بُنتے آ رہے ہیں اور انہیں ہاتھ کے کرگھوں کی کھڑکھڑاہٹ، مندر کی گھنٹیوں اور شام کی اذانوں کی ہم آہنگ فضا میں کام کرنا پسند ہے۔ وارانسی کو بھارت کی قدیم ترین بستیوں میں شمار کیا جاتا ہے، جو 1800 قبل مسیح تک کے زمانے سے جانی جاتی ہے اور ہندو مسلم ثقافت کے امتزاج کے لیے مشہور ہے۔

تاہم حالیہ برسوں میں ان کے کاروبار میں نمایاں کمی آئی ہے، جس کی ایک بڑی وجہ بھارت اور اس کے ہمسایہ ملک بنگلہ دیش کے درمیان جاری کشیدگی بتائی جا رہی ہے۔

اگست گزشتہ سال سے دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کشیدہ ہیں، جب بنگلہ دیش کی سابق وزیرِ اعظم شیخ حسینہ اپنے خلاف عوامی بغاوت کے بعد ڈھاکہ سے نئی دہلی منتقل ہوئیں۔ بنگلہ دیش نے اپنی کئی مشکلات کا ذمہ دار بھارت کو قرار دیا ہے، خاص طور پر حسینہ کی حکومت کے دوران مودی کی حمایت کو لے کر۔

ان کے اقتدار کے خاتمے کے بعد بنگلہ دیش میں ہندو اقلیت سمیت بعض مذہبی گروہوں پر حملے بھی ہوئے، کیونکہ انہیں حسینہ کے حامی سمجھا جاتا تھا۔ اس دوران بنگلہ دیش میں بھارتی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم چلی اور بعض بھارتی کاروباری مراکز پر حملے بھی ہوئے۔ عوامی مطالبہ ہے کہ نئی دہلی حسینہ کو واپس بھیجے تاکہ ان کے خلاف مقدمات چلائے جا سکیں۔

اپریل میں بنگلہ دیش نے بھارت سے کچھ مصنوعات کی درآمد پر پابندی عائد کر دی، جن میں سوت اور چاول شامل تھے۔ مئی میں بھارت نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے زمینی راستوں سے بنگلہ دیشی تیار ملبوسات اور پروسیس شدہ غذائی مصنوعات کی درآمد پر پابندی لگا دی۔ اگرچہ بنگلہ دیش اب بھی اپنی ساڑھیاں بھارت بھیج سکتا ہے، مگر اب اسے سمندری راستہ اختیار کرنا ہوگا جو زیادہ مہنگا اور وقت طلب ہے۔

دنیا بھر میں بنارسی ساڑھیاں اپنی نفیس دستکاری، اعلیٰ ریشم اور باریک سونے چاندی کے دھاگے کی زری کاری کے لیے مشہور ہیں۔ ایک ساڑھی تیار ہونے میں چھ ماہ تک لگ سکتے ہیں اور ان کی قیمت ایک لاکھ روپے (تقریباً 1130 ڈالر) یا اس سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے، جو ڈیزائن اور مواد پر منحصر ہے۔

انصاری کے مطابق، ان ساڑھیوں کی بنگلہ دیش میں تہواروں اور شادیوں کے موقع پر بہت مانگ ہے، مگر پابندی کے بعد کاروبار میں پچاس فیصد سے زائد کمی آ گئی ہے۔

یہ صنعت پہلے ہی کئی حکومتی پالیسیوں کے اثرات سے دوچار تھی، جن میں کرنسی نوٹوں کی منسوخی، بجلی کے نرخوں میں اضافہ، کووِڈ-19 کی وبا، اور جدید پاور لومز پر بنی سستی ساڑھیوں سے مقابلہ شامل ہے، خصوصاً مغربی بھارت کے شہر سورت سے آنے والی مصنوعات۔

گزشتہ چند سالوں کی یہ مشکلات مل کر بہت سے بُنکروں کو کاروبار چھوڑنے پر مجبور کر چکی ہیں۔ اب ان کی تعداد تقریباً دو لاکھ رہ گئی ہے جبکہ باقی لوگ یا تو روزگار کی تلاش میں شہر چھوڑ گئے یا رکشہ چلانے جیسی ملازمتیں اختیار کر لیں۔

وارانسی کے 61 سالہ تھوک تاجر پون یادو نے الجزیرہ کو بتایا کہ ڈھاکہ میں حکومت کی تبدیلی کے بعد ان کا کاروبار تقریباً رک گیا ہے۔ ان کے مطابق، ہم ہر سال تقریباً 10 ہزار ساڑھیاں بنگلہ دیش بھیجتے تھے، مگر اب سب کچھ ٹھپ پڑا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ انہیں اب بھی ہمسایہ ملک کے خریداروں سے 15 لاکھ روپے (17 ہزار ڈالر) وصول کرنے ہیں، مگر موجودہ سیاسی صورتحال میں رقوم کی واپسی تقریباً ناممکن دکھائی دیتی ہے۔

بھارت میں ساڑھی باندھنے کے 108 روایتی انداز درج ہیں، اور یہ دنیا بھر میں اپنے نفیس ڈیزائن اور شوخ رنگوں کی بنا پر حسن اور وقار کی علامت سمجھی جاتی ہیں۔

حکومتی اعداد و شمار کے مطابق موجودہ کشیدگی کے باوجود بھارت کا ٹیکسٹائل شعبہ زراعت کے بعد سب سے زیادہ روزگار فراہم کرتا ہے، جس میں 35 لاکھ سے زائد افراد کام کر رہے ہیں۔ صرف ساڑھی کی صنعت کی مالیت تقریباً 80 ہزار کروڑ روپے (9 ارب ڈالر) ہے، جس میں 30 کروڑ ڈالر کی برآمدات بھی شامل ہیں۔

وارانسی کے بُنکر اور تاجر، جنہوں نے مودی کو تیسری مرتبہ پارلیمان کے لیے منتخب کیا، اب وزیرِ اعظم سے بنگلہ دیش کے ساتھ تجارتی تنازع کے حل کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔

2015 میں مودی حکومت نے 7 اگست کو ’’قومی ہینڈ لوم ڈے‘‘ قرار دیا تھا اور وعدہ کیا تھا کہ ہینڈ لوم صنعت کو فروغ دے کر بُنکروں کی زندگی میں تبدیلی لائی جائے گی۔ تاہم، تاجروں اور کاریگروں کے مطابق اب تک کوئی نمایاں عملی بہتری سامنے نہیں آئی۔

’’بھارت کی ہینڈ لوم دستکاری دنیا میں منفرد ہے، جس کا کوئی ملک مقابلہ نہیں کر سکتا،‘‘ سماجی ادارے ’’سیو دی لوم‘‘ کے بانی رمیش مینن نے کہا، جو اس صنعت کے احیاء کے لیے کام کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق ناکافی کاروباری مواقع اور غیر مستحکم آمدن نے کاریگروں کو پیشہ چھوڑنے پر مجبور کر دیا ہے اور ’’اب نوجوان بُنکر تلاش کرنا بھی مشکل ہو گیا ہے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ہینڈ لوم مصنوعات کو غربت نہیں بلکہ عیش و عشرت کی علامت کے طور پر پیش کیا جائے۔

مغربی بنگال میں ساڑھی تاجروں کو فائدہ

صورتحال مغربی بنگال میں بالکل مختلف ہے، جو وارانسی سے تقریباً 610 کلومیٹر دور اور بنگلہ دیش کی سرحد کے قریب واقع ہے۔

بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان ساڑھی تجارت پر پابندی نے یہاں کے روئی کے ساڑھی تاجروں کے لیے نئی زندگی کی نوید بنائی ہے، جو ڈھاکہ کی مصنوعات کے باعث اپنا حصہ کھو رہے تھے۔

شانت پور (مغربی بنگال) کے 65 سالہ تاجر تارک ناتھ داس گزشتہ چار دہائیوں سے روئی کی ساڑھیوں کا کاروبار کر رہے ہیں۔ وہ مقامی کاریگروں کے تیار کردہ کپڑے ملک بھر کے مختلف شورومز تک پہنچاتے ہیں۔

کئی برسوں کے نقصان کے بعد داس کا کاروبار حالیہ ہفتوں میں درگا پوجا کے تہوار سے قبل اچانک عروج پر پہنچ گیا ہے۔ ان کے بقول، بنگلہ دیشی ساڑھیوں نے ہمارے مارکیٹ کا تقریباً 30 فیصد حصہ نگل لیا تھا، لیکن اب آرڈرز بڑھنے سے ہم دوبارہ پرانی منڈیوں پر قابض ہو رہے ہیں۔ حالیہ تہوار میں فروخت گزشتہ سال کے مقابلے میں 25 فیصد زیادہ رہی۔

شانت پور میں ایک لاکھ سے زائد بُنکر اور تاجر مقیم ہیں، اور اسے مشرقی بھارت میں ساڑھی کاروبار کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔ نادیہ ضلع کے اس علاقے میں ہینڈ لوم صنعت روئی کی نفیس اقسام تیار کرتی ہے، جن میں مشہور شانت پور کاٹن ساڑھی نمایاں ہے۔

قریب ہی ہوگلی اور مرشدآباد اضلاع بھی اپنی روئی کی ساڑھیوں کے لیے معروف ہیں، جو مقامی منڈیوں کے علاوہ یونان، ترکیہ اور دیگر ممالک کو بھی برآمد کی جاتی ہیں۔

نادیہ کے 40 سالہ تھوک تاجر سنجے کرمکار نے بتایا کہ مقامی خواتین بنگلہ دیشی ساڑھیاں زیادہ پسند کرتی تھیں کیونکہ ان کی پیکنگ دلکش اور کپڑا نسبتاً بہتر ہوتا تھا۔ ان کے مطابق جدید طرز کے ملبوسات جیسے لیگنگز اور ٹیو نکس نے بھی ساڑھی کی مقبولیت کم کر دی تھی۔

فیشن ڈیزائنر سنتانو گوہا ٹھاکرتا نے کہا کہ بھارت کے بُنکر اور تاجر بنگلہ دیش پر عائد درآمدی پابندی سے نمایاں طور پر مستفید ہوں گے، کیونکہ اس سے مہنگی ڈیزائنز کی سستی نقلیں بھی ختم ہو جائیں گی۔ ان کے مطابق، یہ پابندیاں بالکل درست وقت پر، یعنی تہواروں کے آغاز سے قبل عائد کی گئیں، جس سے مقامی صنعت کو بڑا فائدہ ہوا ہے۔

مقبول مضامین

مقبول مضامین