جمعہ, اکتوبر 10, 2025
ہومبین الاقوامیاسرائیلی حراست میں گریٹا تھنبرگ کیساتھ ناروا سلوک، کارکنوں کا الزام

اسرائیلی حراست میں گریٹا تھنبرگ کیساتھ ناروا سلوک، کارکنوں کا الزام
ا

مانیٹرنگ ڈیسک (مشرق نامہ) – اسرائیلی افواج کی جانب سے غزہ کے لیے امدادی بحری بیڑے کو روکنے اور تقریباً 450 افراد کو حراست میں لینے کے بعد متعدد کارکنوں نے مؤکلِ ماحولیات گریٹا تھنبرگ کے ساتھ بدسلوکی کے الزامات عائد کیے ہیں۔

ترک حکام کے مطابق ہفتے کے روز 137 غیر ملکی کارکنوں کو اسرائیل سے بے دخل کیے جانے کے بعد وہ استنبول پہنچے، جن میں 36 ترک شہریوں کے علاوہ امریکہ، اٹلی، ملائیشیا، کویت، سوئٹزرلینڈ، تیونس، لیبیا، اردن اور دیگر ممالک کے کارکن شامل تھے۔

ترک صحافی اور ’’غزہ صمود فلوٹیلا‘‘ کے شریک رکن ارسین چیلک نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ انہوں نے اسرائیلی افواج کو گریٹا تھنبرگ پر تشدد کرتے دیکھا۔ ان کے مطابق تھنبرگ کو ’’زمین پر گھسیٹا گیا‘‘ اور ’’اسرائیلی جھنڈے کو چومنے پر مجبور کیا گیا‘‘۔

ملائیشیائی کارکن حزوینی حلمی اور امریکی شریک ون فیلڈ بیور نے استنبول ایئرپورٹ پر اسی نوعیت کے بیانات دیتے ہوئے الزام لگایا کہ تھنبرگ کو دھکا دیا گیا اور اسرائیلی جھنڈے کے ساتھ دکھایا گیا۔

حزوینی حلمی کے بقول، یہ ایک قیامت خیز تجربہ تھا۔ انہوں نے ہمیں جانوروں کی طرح برتا، خوراک، صاف پانی اور دوائیں نہیں دیں۔
بیور نے کہا کہ تھنبرگ کے ساتھ ’’انتہائی برا سلوک‘‘ کیا گیا اور اسے ’’سیاسی پراپیگنڈا کے لیے استعمال کیا گیا‘‘۔ ان کے مطابق اسے ایک کمرے میں دھکیل دیا گیا جب اسرائیل کے انتہائی دائیں بازو کے وزیر برائے قومی سلامتی ایتامار بن گویر اندر داخل ہوئے۔

اطالوی صحافی لورینزو آگوستینو، جو اسی فلوٹیلا میں شامل تھے، نے بھی گریٹا تھنبرگ کے ساتھ سلوک پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ گریٹا تھنبرگ ایک بہادر 22 سالہ خاتون ہیں، جنہیں ذلیل و خوار کر کے اسرائیلی جھنڈے میں لپیٹا گیا اور بطور ٹرافی دکھایا گیا۔

دیگر کارکنوں نے بھی سنگین بدسلوکی کی نشاندہی کی۔ ترک ٹی وی پریزنٹر اقبال گورپینار نے بتایا کہ انہوں نے ہمیں کتوں کی طرح برتا۔ تین دن تک بھوکا رکھا، پانی نہیں دیا، ہم نے بیت الخلا سے پانی پیا۔ موسم انتہائی گرم تھا اور ہم سب جھلس رہے تھے۔ ان کے بقول اس تجربے نے انہیں ’’غزہ کے حالات کا بہتر احساس‘‘ دلایا۔

ترک کارکن آئچن کانتوغلو نے بتایا کہ جیل کی دیواروں پر خون کے دھبے اور سابق قیدیوں کے تحریری پیغامات موجود تھے۔ ان کے مطابق ہم نے ماؤں کو دیکھا جو اپنے بچوں کے نام دیواروں پر لکھ رہی تھیں۔ ہمیں واقعی کچھ لمحوں کے لیے وہی تجربہ ہوا جو فلسطینیوں پر گزرتا ہے۔

اٹلی کے وزیر خارجہ انتونیو تاجانی نے تصدیق کی کہ 26 اطالوی شہریوں کو بے دخل کیا گیا ہے جبکہ 15 مزید افراد اب بھی اسرائیلی حراست میں ہیں اور ان کی ملک بدری کا انتظار ہے۔

اٹلی کے رکنِ پارلیمان آرٹورو اسکوتو، جو فلوٹیلا میں شامل تھے، نے صحافیوں کو بتایا کہ قانون کے مطابق عمل کرنے والے وہ لوگ تھے جو ان کشتیوں پر سوار تھے، جبکہ غیر قانونی عمل کرنے والے وہ تھے جنہوں نے انہیں غزہ پہنچنے سے روکا۔

اسرائیلی انسانی حقوق کی تنظیم ’’عدالہ‘‘، جو قیدیوں کو قانونی معاونت فراہم کرتی ہے، نے کہا کہ حراستی مراکز میں قیدیوں کو گھنٹوں زِپ بند ہاتھوں کے ساتھ گھٹنوں کے بل بٹھایا گیا، دوائیں نہیں دی گئیں، اور وکلاء سے رابطے کی اجازت نہیں دی گئی۔

دوسری جانب اسرائیلی وزارتِ خارجہ نے ان تمام الزامات کو ’’مکمل طور پر جھوٹ‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ تمام قیدیوں کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک کیا گیا۔ وزارت کے ترجمان نے خبر رساں ادارے روئٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عدالہ کی تمام شکایات سراسر جھوٹ ہیں۔ تمام قیدیوں کو پانی، خوراک اور بیت الخلا تک رسائی دی گئی۔ انہیں وکلاء سے ملاقات کی اجازت حاصل تھی اور ان کے تمام قانونی حقوق کا مکمل خیال رکھا گیا۔

اسرائیل کو اس فلوٹیلا پر حملے کے بعد بڑھتی ہوئی عالمی مذمت کا سامنا ہے۔ بتایا گیا کہ اسرائیلی بحریہ نے تقریباً 40 کشتیوں پر مشتمل امدادی بیڑے کو روک لیا اور ان پر سوار 450 سے زائد افراد کو حراست میں لیا۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ کارروائی اسرائیل کی ناکہ بندی کی غیر قانونی نوعیت کو مزید اجاگر کرتی ہے، جس نے جاری جنگ کے دوران غزہ کی 23 لاکھ آبادی کو مکمل طور پر محصور کر رکھا ہے۔

غزہ کے لیے یہ فلوٹیلا اگست کے آخر میں روانہ کی گئی تھی، جو اسرائیلی محاصرے کو توڑنے اور فلسطینیوں تک امداد پہنچانے کی تازہ ترین بین الاقوامی کوشش تھی۔

مقبول مضامین

مقبول مضامین