مانیٹرنگ ڈیسک (مشرق نامہ) – چین کی قابلِ تجدید توانائی کی شراکت داریوں نے لاطینی امریکا کو مغربی تصور کردہ “وسائل برآمد کرنے والے خطے” سے نکال کر عالمی سبز ترقی میں ایک فعال شریک میں تبدیل کر دیا ہے۔
بیجنگ سے شائع ہونے والے روزنامہ گلوبل ٹائمز کے مطابق، چین کی تیزی سے بڑھتی ہوئی قابلِ تجدید توانائی کی سرمایہ کاریاں لاطینی امریکا کے اقتصادی اور جغرافیائی سیاسی منظرنامے کو بدل رہی ہیں اور ایک متبادل ترقیاتی راستہ پیش کر رہی ہیں جو مغربی ماڈل کے برعکس ہے، جس نے طویل عرصے تک لاطینی امریکا کو صرف “وسائل کے ضمیمے” کے طور پر دیکھا۔
مغربی بیانیے کا ٹوٹنا
دہائیوں سے مغربی بیانیوں نے لاطینی امریکا کو خام مال کے ذخیرے اور قرضوں کے جال میں جکڑی ہوئی “پچھواڑے کی معیشت” کے طور پر پیش کیا — یعنی ایک ایسا خطہ جو مغربی صنعتی ضرورتوں کے لیے خام اشیاء فراہم کرتا رہا۔ مگر اب یہ تصور تیزی سے بدل رہا ہے۔ براعظم کے مختلف حصوں میں چینی سبز منصوبے ایک نئے عالمی نظام کی تشکیل کے نمایاں مظاہر بن چکے ہیں۔
چلی کے دارالحکومت سانتیاگو میں اب دو ہزار سے زائد چینی ساختہ برقی بسیں عوامی ٹرانسپورٹ کا حصہ ہیں۔ ارجنٹائن کے اینڈیز پہاڑی سلسلے میں واقع کاؤچاری فوٹو وولٹائک پاور اسٹیشن میں بارہ لاکھ سولر پینل صاف توانائی پیدا کر رہے ہیں، جبکہ شمال مشرقی برازیل میں چین کی کمپنی گولڈ ونڈ کے تعمیر کردہ ہوا سے چلنے والے فارم لاکھوں گھروں کو بجلی فراہم کر رہے ہیں۔
گلوبل ٹائمز کے مطابق یہ منصوبے صرف انفرادی انجینئرنگ کامیابیاں نہیں بلکہ “قابلِ تجدید توانائی سے پیدا ہونے والی جغرافیائی سیاسی طاقت کی از سرِ نو تقسیم” کا حصہ ہیں — جو چین کے “دنیا کی فیکٹری” سے “عالمی سبز انجن” بننے کے سفر کی علامت ہے۔
استخراج سے آگے بڑھتی ہوئی حکمتِ عملی
اخبار کے مطابق مغربی طاقتوں کے برعکس، جنہوں نے تاریخی طور پر لاطینی امریکا سے خام مال نکالا مگر صنعتی پیداوار کی زنجیریں اپنے ممالک میں رکھیں، چین کا نقطۂ نظر اس خطے کو اپنے سبز صنعتی ماحولیاتی نظام میں ضم کر رہا ہے۔
چین مالی معاونت، بنیادی ڈھانچے کی تعمیر، اور ٹیکنالوجی کی منتقلی کے ذریعے لاطینی امریکا کو ایک وسیع سبز ویلیو چین کا حصہ بنا رہا ہے جو مقامی صنعتوں کی ترقی، پیداوار، اور ویلیو ایڈیشن کو فروغ دیتا ہے۔
گلوبل ٹائمز نے اس تبدیلی کو “فرنٹ لائن پر تعینات حکمتِ عملی” قرار دیا ہے، جس کے تحت چین اب لاطینی وسائل کا محض صارف نہیں بلکہ جنوبی عالمی معیشت میں پائیدار صنعتی ترقی کا شریکِ معمار بن چکا ہے۔
مغربی “سبز نوآبادیات” سے تضاد
چین کا نقطۂ نظر مغربی طاقتوں کے اس طرزِ عمل سے مختلف ہے جسے چینی ذرائع نے “سبز نوآبادیات” کہا ہے — یعنی ترقی پذیر ممالک پر ماحولیاتی معیار اور کاربن اخراج کے اہداف مسلط کرنا بغیر اس کے کہ انہیں صنعتی شمولیت کا منصفانہ موقع دیا جائے۔
جہاں مغربی بیانیہ کاربن میں کمی پر زور دیتا ہے، چین اپنی شراکت داری کو “سبز تبدیلی کے ذریعے ترقی” کے فریم ورک میں پیش کرتا ہے، جو مقامی روزگار، صنعتی صلاحیت، اور قومی ترقیاتی اہداف کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔
گلوبل ٹائمز کے مطابق یہ فریم ورک لاطینی امریکا کے ممالک میں گہرے طور پر اثر انداز ہو رہا ہے، جہاں اقوام محض ماحولیاتی وعدوں کے بجائے ٹھوس اقتصادی فوائد چاہتی ہیں۔ صنعتی پارکس، تربیتی پروگراموں، اور کم لاگت قرضوں میں سرمایہ کاری کے ذریعے چین ان ممالک کو صرف وسائل کے فراہم کنندہ سے “سبز صنعت کار” اور “ویلیو کریٹرز” میں بدل رہا ہے۔
مغربی اجارہ داری کو چیلنج
چین کی قابلِ تجدید توانائی میں توسیع اب محض معاشی پھیلاؤ نہیں بلکہ صنعتی سپلائی چینز اور عالمی بیانیے پر مغربی اجارہ داری کے لیے چیلنج بن چکی ہے۔
گلوبل ٹائمز نے زور دیا کہ جیسے جیسے لاطینی امریکی ممالک چینی شراکت داریوں کے ذریعے تزویراتی خودمختاری حاصل کر رہے ہیں، ویسے ویسے مغرب کے “سبز خطبات” خطے کی حقیقتوں سے مزید غیر متعلق دکھائی دے رہے ہیں۔