طالبان کے قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی کو اقوامِ متحدہ کی منظوری کے بعد بھارت کا دورہ کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے، جو خطے میں سفارتی روابط کی بحالی اور بھارت کی محتاط افغان پالیسی میں ایک نئی پیش رفت کی علامت ہے۔
بھارت آئندہ ہفتے طالبان کے اعلیٰ سطحی وفد کی میزبانی کرے گا، جس کی قیادت امیر خان متقی کریں گے۔ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی پابندیوں سے متعلق کمیٹی نے متقی پر عائد سفری پابندی میں عارضی نرمی کی منظوری دے دی ہے۔ یہ دورہ 9 سے 16 اکتوبر تک متوقع ہے اور 2021 میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد کسی اعلیٰ طالبان عہدیدار کا بھارت کا پہلا سرکاری دورہ ہوگا۔
یہ رعایت اقوامِ متحدہ کی قرارداد 1988 (2011) کے تحت دی گئی ہے، جس کے مطابق متقی کو سفارتی مصروفیات کے لیے نئی دہلی سفر کی اجازت دی گئی۔ طالبان رہنما 2001 سے اقوامِ متحدہ کی پابندیوں کے تحت ہیں، جن میں اثاثوں کا منجمد ہونا اور اسلحے کی خرید و فروخت پر پابندی شامل ہے۔ اگست میں ان کی سفر کی اجازت کی درخواست مسترد کر دی گئی تھی، تاہم کمیٹی کے 30 ستمبر کے فیصلے کے بعد اب انہیں یہ موقع فراہم کیا گیا ہے۔
یہ دورہ ایسے وقت میں ہورہا ہے جب خطے کے کئی ممالک طالبان حکومت کو مختلف سطحوں پر تسلیم کرنے یا اس سے روابط بڑھانے کے عمل میں مصروف ہیں۔ روس، چین، قطر اور متحدہ عرب امارات پہلے ہی طالبان کے ساتھ باضابطہ یا غیر رسمی تعلقات قائم کر چکے ہیں۔
بھارت اور کابل کے درمیان دوبارہ سفارتی رابطے
بھارتی وزارتِ خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال کے مطابق وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر طالبان وفد سے ملاقات کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت افغانستان کو انسانی امداد فراہم کرتا رہا ہے، خصوصاً اگست میں آنے والے تباہ کن زلزلے کے بعد بھی۔
اگرچہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد بھارت نے کابل میں اپنا سفارت خانہ بند کر دیا تھا، تاہم نئی دہلی نے قطر کے دارالحکومت دوحہ سمیت مختلف غیر رسمی سفارتی چینلز کے ذریعے طالبان سے رابطے برقرار رکھے ہیں۔
ماہرین کے مطابق متقی کا دورہ طالبان کی عالمی سطح پر سفارتی قبولیت حاصل کرنے اور اقتصادی روابط مضبوط بنانے کی کوششوں کا حصہ ہے۔ اطلاعات کے مطابق وہ بھارت پہنچنے سے قبل روس کا دورہ بھی کریں گے، جو کابل کی جانب سے علاقائی طاقتوں سے تعلقات مضبوط کرنے کی حکمتِ عملی کو ظاہر کرتا ہے۔
جولائی میں روس طالبان حکومت کو تسلیم کرنے والا پہلا ملک بن گیا تھا، جبکہ اگست میں چین نے کابل میں افغانستان اور پاکستان کے ساتھ سہ فریقی مذاکرات کی میزبانی کی تھی، جو طالبان کی زیر قیادت انتظامیہ کے گرد ابھرتے ہوئے نئے علاقائی سفارتی منظرنامے کو اجاگر کرتا ہے۔