مانیٹرنگ ڈیسک (مشرق نامہ) – غزہ سٹی سے بمباری اور جبری انخلا کے بعد فرار پر مجبور دو فلسطینی صحافی اُن درجنوں افراد میں شامل ہیں جو جنوبی علاقے میں پناہ لینے کے دوران اسرائیلی حملوں میں شہید ہوگئے۔
جب اسرائیل نے غزہ سٹی میں بمباری اور انخلا کے احکامات میں شدت پیدا کی تو فلسطینی کیمرہ مین سمیع داؤد نے اپنا سامان سمیٹا اور محفوظ جگہ کی تلاش میں جنوب کی جانب روانہ ہوگیا۔
اس نے اپنے اہلِ خانہ کے ہمراہ دیِر البلح کے علاقے میں ایک خیمے میں پناہ لی، جو قحط زدہ فلسطینی علاقے میں نسبتاً کم خطرناک سمجھا جاتا تھا۔
مگر ایک ہفتے کے اندر ہی اسرائیلی لڑاکا طیارے نے اسی علاقے پر بمباری کی۔ ایک بم سمیع کے خیمے پر آ لگا، جس سے وہ، اس کی بیٹی اور کئی دیگر فلسطینی شہید ہوگئے۔
سمیع کے دوست اور ساتھی فوٹوگرافر یحییٰ برزاق نے مڈل ایسٹ آئی سے گفتگو میں بتایا کہ سامی اپنی بیوی اور بچوں کو محفوظ رکھنے کے لیے ہمیشہ فکر مند رہتا تھا اور جہاں بھی رہتے، ان کے آرام کا خیال رکھتا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ وہ اپنی بیوی کی خوف زدگی کو برداشت نہیں کر سکتا تھا، اسی لیے ہمیشہ چاہتا تھا کہ وہ پرسکون محسوس کرے۔
برزاق کے مطابق، وہ اپنے بچوں کی تربیت، تعلیم اور صفائی ستھرائی کے حوالے سے نہایت حساس اور محتاط تھا۔
غزہ سٹی پر قبضے کے لیے اسرائیلی کارروائی
اگست کے وسط میں اسرائیل نے غزہ سٹی پر قبضہ جمانے کے مقصد سے ایک بڑے زمینی آپریشن کا پہلا مرحلہ شروع کیا۔
یہ اس کی فوجی حکمتِ عملی میں نمایاں شدت کی علامت تھی، جو مہینوں تک فضائی حملوں سے بڑھ کر اب مکمل زمینی یلغار کی شکل اختیار کر چکی تھی۔
ستمبر کے وسط تک اسرائیلی فوج نے فضائی حملوں میں مزید تیزی لاتے ہوئے غزہ سٹی اور شمالی غزہ کے ایک ملین سے زائد مکینوں کو جنوبی علاقوں کی جانب نکلنے کے نئے احکامات جاری کیے۔
مسلسل بمباری اور شمال میں کسی محفوظ پناہ گاہ کے نہ ہونے کے باعث لاکھوں افراد کو ہجرت پر مجبور ہونا پڑا۔
مگر ان میں سے کئی، جیسے سمیع داؤد، اُن ہی علاقوں میں شہید گئے جہاں وہ پناہ لینے پہنچے تھے — کیونکہ وہاں بھی بمباری اتنی ہی شدید تھی۔
غزہ کے گورنمنٹ میڈیا آفس کے مطابق، 11 اگست سے اب تک اسرائیل نے وسطی اور جنوبی غزہ میں 1,903 فلسطینیوں کو شہید کیا ہے، جو اس مدت کے دوران مجموعی شہادتوں کا 46 فیصد بنتا ہے۔
ناقابلِ تصور بربریت
سمیع داؤد مشرقی غزہ سٹی کے شجاعیہ محلے کا رہائشی تھا اور اکتوبر 2023 میں اسرائیل کے غزہ میں نسل کشی کے آغاز سے اب تک کئی بار بے گھر ہو چکا تھا۔
جنوری میں فائر بندی کے معاہدے کے بعد وہ اپنے گھر واپس آیا، مگر تقریباً ایک ماہ بعد اسرائیل نے معاہدہ توڑتے ہوئے دوبارہ حملے شروع کیے، جس کے بعد اُسے ایک بار پھر گھر چھوڑنا پڑا۔
ابتدائی طور پر سمیع نے دوستوں، بشمول یحییٰ برزاق، کے مشوروں کے باوجود گھر چھوڑنے سے انکار کیا۔
مگر اگلے ہی روز اس نے گروپ چیٹ میں پیغام بھیجا کہ وہ اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ گولی باری کے دوران فرار ہو رہا ہے اور گھر سے کچھ نہیں لے جا سکا۔
برزاق نے بتایا کہ ہم سب ہنسنے لگے اور کہا، تم تو کل تک کہہ رہے تھے تم بہادر ہو اور نہیں نکلو گے۔
سمیع نے جواب دیا کہ میں نے کبھی ایسا خوف اور بربریت نہیں دیکھی۔ اس دن کے بعد میں نے طے کر لیا کہ اپنی فیملی کو دوبارہ کبھی اس خطرے میں نہیں ڈالوں گا۔
پناہ کی تلاش میں اس نے برزاق سے مدد مانگی۔
برزاق نے اُسے بتایا کہ غزہ سٹی میں ایک سات منزلہ عمارت ہے، جو آدھی تباہ ہوچکی ہے اور باقی حصہ خطرناک زاویے پر جھکا ہوا ہے، مگر کچھ بے گھر خاندان ابھی بھی وہاں مقیم ہیں کیونکہ وہ خیموں سے نسبتاً محفوظ جگہ سمجھتے تھے۔
ایک فلیٹ خالی تھا، جو سامی نے قبول کرلیا۔ وہ وہاں تین دن تک رہا۔
پھر اس نے مجھے بتایا، یحییٰ، یہ عمارت خطرناک ہے، ہر دھماکے کے ساتھ ہلتی ہے، اور بچے ڈر جاتے ہیں۔
برزاق نے کہا کہ اس کے بعد وہ ایک اور اپارٹمنٹ میں منتقل ہوگیا۔
موت سے موت کی طرف فرار
بالآخر سمیع نے غزہ سٹی کو مکمل طور پر چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔
جب وہ پچھلے ماہ وسطی غزہ پہنچا تو دوبارہ برزاق سے رابطہ کیا اور پیغام بھیجا کہ میری مدد کرو، میں پہنچ گیا ہوں لیکن سڑک پر ہوں۔
برزاق نے آن لائن اپیل کی کہ اگر کوئی دیِر البلح میں سمیع اور اس کے اہلِ خانہ کو ایک رات کے لیے بھی پناہ دے سکتا ہے تو اطلاع دے، مگر کوئی جواب نہیں ملا۔
اُس رات وہ تقریباً کھلے آسمان تلے سویا، برزاق نے کہا۔
اگلے روز اُس نے ایک خالی قطعہ زمین تلاش کیا جہاں اُس نے خیمہ نصب کیا۔
اس نے بتایا کہ وہ مطمئن ہے کیونکہ وہاں قریب میں کوئی اور موجود نہیں تھا، اس لیے اسے علاقہ محفوظ لگا۔
تقریباً ایک ہفتے بعد ایک اسرائیلی فضائی حملے میں وہی خیمہ نشانہ بنا۔
اس حملے میں سامی اپنی بڑی بیٹی غنٰی کے ہمراہ شہید ہوگیا، جب کہ اُس کی بیوی اور درمیانی بیٹی زخمی ہو گئیں۔
سمیع کی موت نے غزہ کے صحافتی حلقوں میں صدمہ اور غم کی لہر دوڑا دی۔
اس کے ساتھیوں کا کہنا تھا کہ اُس کا کام کبھی بھی اسرائیلی فوج کے لیے اشتعال انگیزی کا سبب نہیں تھا۔
برزاق نے بتایا کہ ہم نے کورونا وبا کے دوران ایک آن لائن تعلیمی چینل پر ساتھ کام کیا تھا، جس کا مقصد نصاب کو ڈیجیٹل اسباق میں منتقل کرنا تھا تاکہ طلبا اور اساتذہ آن لائن تعلیم حاصل کرسکیں۔
سمیع کیمرہ مین اور ویڈیو ایڈیٹر تھا۔ وہ اپنے کام میں نہایت ماہر اور پروفیشنل تھا۔ اس کی پہچان اس کا سکون، اخلاق اور ایمان تھا۔
یحییٰ برزاق بھی شہید
سوموار کو مڈل ایسٹ آئی سے گفتگو کے ایک روز بعد ہی یحییٰ برزاق خود بھی دیِر البلح میں اسرائیلی فضائی حملے میں شہید ہوگیا۔
حملہ اُس علاقے میں ہوا جہاں وہ ایک کافی شاپ کے قریب اپنی تصاویر کا مواد اپلوڈ کر رہا تھا۔
فلسطینی فوٹوگرافر محمود ابوحمدا کے مطابق، برزاق دو ہفتے قبل غزہ سٹی سے دیِر البلح منتقل ہوا تھا۔
وہ ابھی خیمہ لگا ہی رہا تھا۔ خیمہ مکمل نہیں ہوا تھا، مگر کوئی اور جگہ نہیں ملنے پر اس نے ایک عمارت کی چھت پر خیمہ نصب کیا، ابوحمدا نے بتایا۔
سمیع کی طرح، برزاق بھی اپنی بیوی اور دو بچوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ کی تلاش میں تھا۔
جب ابوحمدا کو اس کی شہادت کی خبر ملی تو وہ الاقصیٰ اسپتال کے مردہ خانے پہنچا تاکہ آخری دیدار کر سکے۔
میں نے دیکھا کہ اُس کے سر کے پچھلے حصے پر خون جمتا ہوا تھا، غالباً شریپنل سے لگا تھا، اس نے کہا۔
ابوحمدا نے مزید بتایا کہ یہ پہلا موقع نہیں تھا جب وہ موت سے دوچار ہوا ہو۔ پچھلے سال وہ TRT کے لیے ایک اسٹوری فلم کر رہا تھا جب ایک ڈرون نے اُس پر براہِ راست فائر کھول دیا۔ اُس نے ایک خیمے میں پناہ لی اور واقعہ ریکارڈ کرلیا۔
برزاق غزہ میں نومولود بچوں کے فوٹوگرافر کے طور پر مشہور تھا، جس نے سیکڑوں بچوں کی تصاویر کھینچی تھیں۔
جنوری میں اُس نے ایک ویڈیو شائع کی جس میں وہی بچے دکھائے گئے جنہیں اُس نے کبھی اپنے اسٹوڈیو میں فوٹوگراف کیا تھا — اور اب وہ اسرائیلی حملوں میں مارے جا چکے تھے۔
اُس نے ویڈیو کے کیپشن میں لکھا کہ یہ وہ بچے ہیں جنہیں میں نے فوٹوگراف کیا تھا۔ میں نے اُن کی ہنسی، اُن کے والدین کی محبت دیکھی، اور وہ پلک جھپکتے میں مار دیے گئے۔ میں چاہتا ہوں یہ جنگ ختم ہو — سب کے لیے، مگر خاص طور پر بچوں کے لیے۔ میں اُن کے رونے، خوف، چیخوں اور بھوک کو مزید نہیں دیکھ سکتا۔
ابوحمدا کے مطابق، برزاق کو ہمیشہ احساس رہتا تھا کہ وہ جنگ میں مارا جائے گا۔
اُسے لگتا تھا موت قریب ہے۔ وہ ہمیشہ کہتا تھا کہ جنگ رک جائے، کیونکہ کوئی یقین نہیں کہ وہ بمباری یا شریپنل سے بچ پائے گا۔ جس واقعے میں وہ مرا، وہ ہمیشہ اس کے ذہن میں رہتا تھا، اس نے کہا.
وہ اکثر کہتا تھا کہ یہ کیسی ستم ظریفی ہے — کبھی وہ اُن بچوں کی تصاویر لیتا تھا جو دنیا میں ابھی آئے تھے، اور اب وہ غزہ میں موت کی تصاویر بنا رہا تھا۔