واشنگٹن (مشرق نامہ) – امریکی سینیٹ بدھ کے روز ایک مختصر مدتی اخراجات بل کی منظوری میں ناکام رہی، جس کے نتیجے میں وفاقی حکومت تقریباً سات برس بعد پہلی مرتبہ شٹ ڈاؤن کا شکار ہوگئی۔
سینیٹ نے انہی دو مسودوں پر دوبارہ ووٹنگ کی جنہیں منگل کی شب بھی منظور نہ کیا جا سکا تھا—ایک ڈیموکریٹس اور دوسرا ریپبلکنز کی جانب سے پیش کیا گیا تھا۔
تازہ مذاکرات میں صحت عامہ کے فوائد سب سے بڑا تنازع بنے رہے۔ ڈیموکریٹس صحت کے لیے زیادہ فنڈنگ کے حامی ہیں، جب کہ ریپبلکنز ان پر الزام عائد کرتے ہیں کہ وہ غیر دستاویزی تارکین وطن کو مفت صحت کی سہولیات دینا چاہتے ہیں۔
امریکی نائب صدر جے ڈی وینس نے فاکس نیوز کو انٹرویو میں کہا کہ سینیٹ ڈیموکریٹس حکومت کو بند کر کے معیشت کو یرغمال بنائے ہوئے ہیں کیونکہ وہ غیر قانونی تارکین وطن کے لیے یہ فوائد بحال کرنا چاہتے ہیں۔
اس کے برعکس، سینیٹ کے اقلیتی رہنما چک شومر نے بدھ کو پلیٹ فارم "ایکس” پر بیان میں کہا کہ ریپبلکنز نے ملک بھر کے امریکیوں کی صحت کے تحفظ سے پہلوتہی کی اور حکومت کو بند کر دیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ریپبلکنز جھوٹ بول رہے ہیں کیونکہ وفاقی بجٹ کا ایک بھی ڈالر غیر دستاویزی تارکین وطن کے لیے صحت بیمہ پر خرچ نہیں ہوتا۔
امریکہ میں حکومتی شٹ ڈاؤن اکثر سیاسی تعطل کی وجہ سے ہوتا رہا ہے، تاہم یہ پہلا موقع ہے 2019 کے 35 روزہ ریکارڈ تعطل کے بعد جب ڈونلڈ ٹرمپ اپنے پہلے دور صدارت میں تھے۔ شٹ ڈاؤن عوام میں غیر مقبول ہوتا ہے کیونکہ اس کے دوران قومی پارکوں سے لے کر پرمٹ کے حصول تک کئی بنیادی خدمات معطل ہو جاتی ہیں۔
اس بار شٹ ڈاؤن اس وقت آیا ہے جب ٹرمپ اپنی سخت گیر پالیسیوں پر تیزی سے عملدرآمد کر رہے ہیں، جن میں سرکاری محکموں کی بڑی کٹوتیاں بھی شامل ہیں۔ وائٹ ہاؤس نے خبردار کیا ہے کہ بہت سے سرکاری ملازمین کو مستقل برطرف کیا جا سکتا ہے۔
وینس نے بدھ کو متنبہ کیا کہ اگر شٹ ڈاؤن چند دن یا ہفتے مزید جاری رہا تو بڑے پیمانے پر برطرفیاں کرنا پڑیں گی۔ وائٹ ہاؤس کی ترجمان کیرولین لیوٹ نے بھی کہا کہ برطرفیوں کا آغاز جلد ہو سکتا ہے۔
حکومتی شٹ ڈاؤن کے باعث واشنگٹن مونومنٹ اور امریکی کیپیٹل سمیت کئی تاریخی مقامات بند کر دیے گئے ہیں۔ تاہم اسمتھسونین انسٹی ٹیوشن نے اعلان کیا کہ وہ گزشتہ مالی سال کے بجٹ سے 6 اکتوبر تک اپنے میوزیمز، تحقیقی مراکز اور نیشنل زو کو کھلا رکھے گی۔
زیادہ تر نیشنل پارکس کی اوپن ایریاز کھلی رہیں گی، مگر وزیٹر سینٹرز جیسے سہولتی مقامات بند کر دیے جائیں گے۔ لازمی تصور کیے جانے والے وفاقی ملازمین کو کام پر حاضر ہونا ہوگا لیکن انہیں ادائیگی حکومت کھلنے کے بعد ہی کی جائے گی، جب کہ لاکھوں دیگر ملازمین بغیر تنخواہ کے گھروں پر بیٹھیں گے۔ کئی عوامی خدمات بھی معطل یا تاخیر کا شکار ہوں گی، اور اقتصادی اعداد و شمار کی اشاعت بھی متاثر ہوگی۔
کمیٹی فار اے ریسپانسبل فیڈرل بجٹ کی صدر مایا میک گنیس نے ایک بیان میں کہا کہ شٹ ڈاؤن نہ صرف پیسہ نہیں بچاتا بلکہ ضائع کرتا ہے۔ ان کے مطابق حکومت ملازمین کو بغیر کام کے ادائیگی کرتی ہے، غیر استعمال شدہ عمارتوں کا کرایہ ادا کرتی ہے اور ساتھ ہی مہنگی منصوبہ بندی و غیر مؤثر وسائل مختص کرنے کے عمل میں الجھ جاتی ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ شٹ ڈاؤن سے بچا جائے اور حکومت کو فنڈ کیا جائے۔