ہفتہ, اکتوبر 11, 2025
ہومبین الاقوامیامریکی حکومت بند ہوگئی – اب کیا ہوگا؟

امریکی حکومت بند ہوگئی – اب کیا ہوگا؟
ا

تقریباً دس لاکھ وفاقی ملازمین کو عارضی طور پر فارغ کیے جانے کی توقع ہے جبکہ دیگر، جن میں ایف بی آئی اور سی آئی اے کے ایجنٹ بھی شامل ہیں، بغیر تنخواہ کے کام جاری رکھیں گے۔

از: سارہ شمیم

امریکہ کی وفاقی حکومت بدھ کے روز اس وقت بند ہوگئی جب سینیٹ میں ڈیموکریٹس اور ریپبلکنز ایک قلیل مدتی فنڈنگ پلان پر اتفاق رائے کرنے میں ناکام رہے۔

یہاں اس کے بعد کے حالات بیان کیے جا رہے ہیں۔

امریکی حکومت کیوں بند ہوئی؟

امریکی حکومت کا شٹ ڈاؤن بدھ کو 00:01 ای ڈی ٹی (04:01 جی ایم ٹی) پر شروع ہوا، جو نئے مالی سال کا آغاز تھا۔ اس وقت تک گزشتہ سال کے فنڈز برائے حکومتی اخراجات ختم ہو چکے تھے۔

ریپبلکنز کانگریس کے دونوں ایوانوں پر قابض ہیں لیکن وہ اس بل پر اتفاق رائے حاصل کرنے میں ناکام رہے جس کے ذریعے 21 نومبر تک حکومت کی فنڈنگ جاری رہنی تھی۔ اس بل کے بغیر حکومت کام نہیں کرسکتی۔

ڈیموکریٹس نے اس بل کی حمایت سے انکار کر دیا جب تک کہ ریپبلکنز، ٹرمپ کے جولائی میں منظور کردہ “ون بگ بیوٹی فل بل” کے تحت میڈیکیڈ میں کی گئی حالیہ کٹوتیوں کو واپس نہیں لیتے۔ ڈیموکریٹس نے متبادل تجاویز پیش کیں مگر ریپبلکنز نے انہیں مسترد کر دیا، جس کے نتیجے میں کانگریس ڈیڈ لاک کا شکار ہوگئی۔

سرکاری ملازمین کے ساتھ اب کیا ہوگا؟

جب حکومت بند ہو جاتی ہے تو اداروں کو اپنے "نان ایکسیپٹڈ” یعنی غیر ضروری ملازمین کو "فرلو” کرنا پڑتا ہے، یعنی انہیں معطل یا فارغ کرنا پڑتا ہے۔

یہ فرلو کیے گئے ملازمین شٹ ڈاؤن کے دوران کوئی تنخواہ نہیں پاتے۔ حکومت کے دوبارہ فعال ہونے پر زیادہ تر کو بقایا جات ادا کیے جائیں گے کیونکہ 2019 میں کانگریس نے اس سلسلے میں قانون پاس کیا تھا۔

تاہم یہ قانون کنٹریکٹ ملازمین پر لاگو نہیں ہوتا۔ صفائی کے عملے اور دیگر کنٹریکٹرز کو صرف اسی صورت تنخواہ ملے گی جب ان کی کمپنی نے اس کے لیے بجٹ مختص کیا ہو۔

“ایکسپٹڈ” ملازمین کی تعریف ان افراد کے طور پر کی جاتی ہے "جو جان و مال کی حفاظت کرتے ہیں”۔ یہ ملازمین شٹ ڈاؤن کے دوران اپنے فرائض انجام دیتے رہیں گے مگر تنخواہیں شٹ ڈاؤن کے اختتام تک مؤخر رہیں گی۔

ہر ادارے کو پہلے ہی اس صورتحال کے لیے اپنی اسٹافنگ پلان جمع کرانی تھی۔ جان اوونز، یونیورسٹی آف ویسٹ منسٹر لندن میں امریکی حکومت و سیاست کے ایمرٹس پروفیسر، نے الجزیرہ کو بتایا کہ تقریباً 9 لاکھ وفاقی ملازمین کو اب فارغ کیے جانے کی توقع ہے۔

تاہم ان میں سے بہت سے شاید دوبارہ ملازمت پر واپس نہ آئیں۔ اگرچہ ماضی میں امریکہ درجنوں بار شٹ ڈاؤن کا سامنا کر چکا ہے، وائٹ ہاؤس نے اس بار 24 ستمبر کو بجٹ آفس (OMB) کے ذریعے جاری کردہ میمو میں اداروں کو بڑے پیمانے پر چھانٹی کی تیاری کی ہدایت دی تھی۔

’فرلو‘ کا مطلب کیا ہے اور لوگ بل کیسے ادا کریں گے؟

فرلو کا مطلب ہے کسی ملازم کو ایک مدت کے لیے بغیر تنخواہ معطل کر دینا۔

یونیورسٹی کالج ڈبلن کے کلنٹن انسٹی ٹیوٹ میں امریکی و عالمی سیاست کے پروفیسر اسکاٹ لوکاس نے الجزیرہ کو بتایا:
"جب آپ فرلو کیے جاتے ہیں تو آپ بغیر تنخواہ رخصت پر ہوتے ہیں، جیسا کہ آپ کو یاد ہوگا کہ وبا کے دوران بھی بہت سے لوگ فرلو پر تھے۔”

انہوں نے کہا کہ تاہم اس صورت میں جب آپ تنخواہ سے محروم ہوں گے تو کوئی وفاقی امدادی ادائیگیاں بھی دستیاب نہیں ہوں گی۔

ٹرمپ کی پہلی مدت کے دو سال بعد، دسمبر 2018 میں 35 دن کا طویل ترین شٹ ڈاؤن ہوا تھا، جب کانگریس فنڈنگ پر متفق نہ ہو سکی۔ اس وقت نو وفاقی محکمے مکمل یا جزوی طور پر بند ہو گئے تھے: زراعت، تجارت، ہوم لینڈ سکیورٹی، ہاؤسنگ اینڈ اربن ڈویلپمنٹ، داخلہ، انصاف، خارجہ، ٹرانسپورٹیشن اور خزانہ۔

لوکاس نے بتایا کہ اس دوران کئی افراد کو قرض لینا پڑا یا اہلِ خانہ اور دوستوں پر انحصار کرنا پڑا۔ کچھ لوگ فوڈ بینکس سے بھی رجوع ہوئے، جو ایسی غیر منافع بخش تنظیمیں ہیں جو ضرورت مندوں میں اضافی خوراک تقسیم کرتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس صورتحال کے لیے کوئی حقیقی حفاظتی جال موجود نہیں۔ یہ ایک فوری انسانی قیمت ہے۔

کیا کھلا رہے گا اور کیا بند ہوگا؟

یہ ہے کہ مختلف سرکاری اداروں اور خدمات کے ساتھ کیا ہوگا:

سوشل سکیورٹی ایڈمنسٹریشن معذوری اور ریٹائرمنٹ بینیفٹس جاری رکھے گی کیونکہ یہ لازمی فنڈنگ سے چلتی ہے۔ تاہم یہ اپنے 12 فیصد عملے کو فرلو کرے گی اور تمام تشہیری مہمات روک دے گی۔

میڈیکیئر اور میڈیکیڈ بھی جاری رہیں گے کیونکہ یہ لازمی فنڈنگ سے چلتے ہیں۔

ایف بی آئی، سی آئی اے، ڈی ای اے، کوسٹ گارڈ اور دیگر وفاقی ادارے کام جاری رکھیں گے مگر ملازمین کو ادائیگی شٹ ڈاؤن ختم ہونے تک نہیں ہوگی۔

امریکی پوسٹل سروس اپنے محصولات سے چلتی ہے، ٹیکس پیسوں سے نہیں، اس لیے ڈاک خانہ کھلا رہے گا۔

انٹرنل ریونیو سروس (IRS) ابتدائی پانچ دنوں تک مکمل عملے کے ساتھ کام کرے گی۔ اس کے بعد کی حکمت عملی واضح نہیں۔ رواں سال ٹرمپ کی جانب سے کی گئی چھانٹی کے بعد اس کے پاس صرف 75 ہزار ملازمین بچے ہیں۔

ایئر ٹریفک کنٹرولرز کی تعداد 14 ہزار سے زیادہ ہے، ان میں سے 13 ہزار سے زائد شٹ ڈاؤن کے دوران بھی کام کریں گے مگر بغیر تنخواہ۔

عدالتیں جمعہ تک فنڈز سے محروم ہو سکتی ہیں۔ پچھلے شٹ ڈاؤن میں یہ پانچ ہفتے تک کھلی رہی تھیں۔

دو ملین فوجی اہلکار اپنی ڈیوٹی پر موجود رہیں گے مگر انہیں تنخواہ شٹ ڈاؤن ختم ہونے پر ملے گی۔ ٹرمپ نے محکمہ دفاع کا نام بدل کر "ڈیپارٹمنٹ آف وار” رکھنے کا حکم دیا ہے، مگر اس کے لیے کانگریسی منظوری درکار ہے۔

امیگریشن کورٹس اور سرحدی عملہ زیادہ تر سرگرم رہے گا کیونکہ ٹرمپ نے غیر قانونی ہجرت کو "قومی ہنگامی صورتحال” قرار دیا ہے۔

سمال بزنس ایڈمنسٹریشن اپنے 24 فیصد عملے کو فارغ کرے گی۔

فیما (FEMA) کے تقریباً 4 ہزار ملازمین فرلو ہوں گے، تاہم اس کے پاس 2.3 ارب ڈالر کا ڈیزاسٹر ریلیف فنڈ موجود ہے۔

کسٹمز اور امیگریشن سروسز کی وہ سرگرمیاں جاری رہیں گی جو فیس یا محصولات سے چلتی ہیں۔

کیا ڈیموکریٹس میڈیکیئر کٹوتیوں پر سمجھوتہ کریں گے؟

ایسا امکان نہیں لگتا کہ ڈیموکریٹس میڈیکیئر کٹوتیوں کی بحالی یا میڈیکیڈ سبسڈیز کی توسیع پر سمجھوتہ کریں گے تاکہ حکومت دوبارہ چل سکے۔

جب وائٹ ہاؤس نے اداروں کو عملے کی چھانٹی کا حکم دیا تو کانگریس میں ڈیموکریٹک قیادت نے اس کی مذمت کی۔

سینیٹر شومر نے 25 ستمبر کو ایکس پر لکھا کہ یہ دھونس دینے کی کوشش ہے۔ جیوفرِیز نے بھی کہا کہ ہم بڑے پیمانے پر برطرفیوں کی دھمکیوں سے مرعوب نہیں ہوں گے۔

لوکاس کے مطابق ڈیموکریٹس اس لیے بھی جھکنے کو تیار نہیں کیونکہ مارچ میں وہ پہلے ہی ٹرمپ انتظامیہ کو جواب دہ ٹھہرانا چاہتے تھے، جو بڑے پیمانے پر چھانٹیوں اور ایجنسیوں کی بندش میں مصروف تھی۔

اس وقت یو ایس ایڈ (USAID) جیسی ایجنسی مکمل طور پر بند کر دی گئی تھی، جسے عدالت نے غیر آئینی قرار دیا تھا۔

شٹ ڈاؤن کے دوران ٹرمپ اور کیا کر سکتے ہیں؟

ٹرمپ نے اس شٹ ڈاؤن کا الزام ڈیموکریٹس پر عائد کیا ہے۔

انہوں نے بدھ کو وائٹ ہاؤس میں کہا کہ ہم بہت سے لوگوں کو فارغ کریں گے، جو بہت متاثر ہوں گے۔ اور وہ ڈیموکریٹس ہوں گے، وہ ڈیموکریٹس ہی ہوں گے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ شٹ ڈاؤن سے کئی اچھے نتائج برآمد ہو سکتے ہیں” اور یہ اشارہ دیا کہ وہ اس موقع کو استعمال کر کے بہت سی ایسی چیزوں سے جان چھڑا سکتے ہیں جو ہم نہیں چاہتے تھے اور وہ ڈیموکریٹس کی تھیں

لوکاس نے وضاحت کی کہ ٹرمپ کا اشارہ سرکاری محکموں اور پروگرامز کی بندش کی طرف ہے۔ انہوں نے رواں سال محکمہ تعلیم کو ختم کرنے کے لیے ایگزیکٹو آرڈر بھی دستخط کیا تھا، اگرچہ اس کے لیے بھی کانگریسی منظوری ضروری ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ ماحولیات کے تحفظ کے محکمے جیسی ایجنسیوں کو بھی نشانہ بنا سکتے ہیں، جو اب بڑی حد تک "فوسل فیول انڈسٹری کا آلہ” بن چکی ہے، یا محکمہ انصاف کے سول رائٹس دفتر کو جو "ٹرمپ کے مخالفین” پر توجہ مرکوز کرنے کے سبب "مفلوج” ہو چکا ہے۔

پبلک سروس کے لیے پارٹنرشپ کے سی ای او میکس اسٹیر نے کہا کہ ٹرمپ اس شٹ ڈاؤن کو حکومتی افعال ختم کرنے کے لیے بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ ان کے مطابق اگر قانون ساز کسی معاہدے تک نہ پہنچے تو ٹرمپ کے پاس بڑی گنجائش ہوگی کہ وہ طے کریں کہ کون سی سروسز، پروگرامز اور ملازمین کو معطل کیا جائے – اور یہ فیصلے ماضی کے شٹ ڈاؤن سے کہیں زیادہ سنگین ہو سکتے ہیں۔

امریکی مارکیٹس نے شٹ ڈاؤن پر کیا ردعمل دیا؟

ماہرین کے مطابق مارکیٹس پہلے ہی اس جھٹکے کے لیے تیار تھیں، اس لیے وہ مستحکم رہیں۔ امریکہ کی تین بڑی اسٹاک انڈیکس – ڈاؤ جونز، ایس اینڈ پی 500 اور نیسڈیک – منگل کو معمولی اضافے کے ساتھ بند ہوئیں۔

لوکاس نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ مارکیٹس پہلے ہی سمجھ گئی تھیں کہ شٹ ڈاؤن ممکن ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ دیگر عالمی اور ملکی عوامل کو بھی دیکھ رہی ہیں جو سرمایہ کاری پر اثرانداز ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ مارکیٹس کو ٹرمپ کی غیر یقینی پالیسیوں اور افراتفری کی عادت ڈالنی پڑی ہے۔ یہ شٹ ڈاؤن ٹیرف کے تنازعات، افراطِ زر بڑھانے والے اقدامات اور کساد بازاری کے خطرات کے اوپر ایک اور بحران ہے۔

مقبول مضامین

مقبول مضامین