جمعہ, اکتوبر 10, 2025
ہومبین الاقوامیمشرق وسطیٰ میں نمایا تبدیلیاں، اسلامی ممالک کے تعلقات میں بہتری

مشرق وسطیٰ میں نمایا تبدیلیاں، اسلامی ممالک کے تعلقات میں بہتری
م

مانیٹرنگ ڈیسک (مشرق نامہ) سات اکتوبر کے حماس کی کارروائی سے شروع ہونے والی تبدیلیاں مشرق وسطیٰ کو گھیر رہی ہیں۔ اسلامی ممالک میں تعلقات کی بہتری، پاک سعودی دفاعی معائدہ اور عرب ممالک کی امریکہ پر عدم اعتماد ان تبدیلیوں کی چند مثالیں ہیں۔

بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ خطے میں سات اکتوبر کے بعد غاصب اسرائیل کی پالیسی انتہائی جارحانہ رہی ہے۔ اسرائیل اپنے اتحادیوں کے بھی مشوروں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے وہی کر رہا ہے، جو اس کا اپنا ایجنڈا ہے۔

تجزیہ کاروں کے نزدیک یہ ایجنڈا اسرائیل کی اپنی سکیورٹی اور جغرافیے کی توسیع ہے۔ اس کے توسیع طلب منصوبے اعلانیہ بیان ہو رہے ہیں اور برملا بولا جا رہا ہے۔ اس کے مد مقابل اگرچہ غزہ کے بارے میں دو سال تک کوئی خاص قدم نہیں اٹھایا گیا، لیکن مشرق وسطیٰ کے مسلم ممالک میں بھی تیز رفتار تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ جن میں مصر اور ترکی کے تعلقات کی بحالی، مصر اور ایران کے تعلقات میں تیز رفتار بہتری، سعودی اور ایران کے تعلقات میں غیر معمولی بہتری، ترکی اور گلف ممالک میں بہتری، مشرق وسطیٰ کے امیر ملکوں میں امریکی سکیورٹی اور تحفظ پر عدم اطمنان میں اضافہ نمایا تبدیلیاں ہیں۔ لیکن ان تمام مثبت اقدامات کے باجود ابھی تک باقاعدہ عملی کوئی مشترکہ قدم اٹھایا نہیں گیا، لیکن یہ تیز رفتار باہمی تعلقات ایسے اشارے کہلائے جاسکتے ہیں جس کی کوئی عملی شکل آگے جاکر نکل آئے۔ جس کی ایک مثال سعودی اور پاکستانی مشترکہ دفاعی معاہدہ ہے۔ دوسری جانب لبنان میں مزاحمتی تحریک کے سربراہ کی جانب سے سعودی عرب کو نظرثانی کرنے کی دعوت بھی دی گئی ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر تیزی کے ساتھ فلسطین کو بعنوان ریاست قبول کرنے کے اعلانات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ متعدد تجزیہ کاروں کے نزدیک اس کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں، جن میں سے ایک اس حقیقت کو سمجھنا ہے کہ غاصب اسرائیل کی موجودہ انتہائی جارحانہ پالیسی و اقدامات کا نتیجہ اس کے خلاف خطے میں کسی بھی مشترکہ بڑے اقدام کو دعوت دے سکتا ہے، جو اس کی تباہی کا سبب بنے گا۔ لہٰذا دو ریاستی حل کی جانب فوری طور پر بڑھا جا رہا ہے، تاکہ ایسے کسی بھی اقدام کو پیشگی طور پر روکا جاسکے۔

عالمی عوامی سطح پر بدلتی صورتحال اور شدید دباؤ بھی اس کے پچھے یقیناً موجود ہے۔ تجزیہ کار حیرت کا اظہار کر رہے ہیں کہ دو سال قبل تک غاصب ریاست کے لئے نارملائزیشن اہم مسئلہ تھا اور وہ پوری قوت سے اس کے لیے کام کر رہا تھا، تو دوسری جانب وہ ایسے معاہدے کر رہا تھا جس کے تحت خطے میں اسے مزید تحفظ کا احساس ملے۔ لیکن اس وقت اس کے سامنے ایسا کونسا اہم اور بڑی اہمیت کا منصوبہ ہے جس کی خاطر وہ نارملائزیشن سمیت سکیورٹی اقدامات کو قربان کرنے کے لئے تیار ہے؟ کیا یہ صرف نیتن یاہو اپنے آپ کو بچانے کے لیے کر رہا ہے؟

پوری دنیا کی رائے عامہ کا گراف مسلسل اس کے خلاف اپر جا رہا ہے اور عالمی سطح پر غم و غصہ شدید ہوتا جارہا ہے۔ خطے میں وہ دشمن اور مخالفین میں مسلسل اضافہ کرتا جا رہا ہے۔ نئے نئے ملکوں پر چڑھائی کرتے اسے جھجھک نہیں ہو رہی ہے۔ غزہ میں کوئی بھی ایسا جرم نہیں، جس کو انجام دیتے ہوئے اسے معمولی سا بھی خیال آرہا ہو۔ تو اس سب کے پچھے کونسا ایسا اہم ایجنڈا ہوسکتا ہے جس کے لئے وہ ہر قسم کی قیمت کو داؤ پر لگانے کی ٹھان چکا ہے؟ وہ برملا اپنے گریٹر ملک کے جغرافیے کو سعودی عرب، شام اور عراق تک پھیلا کر بیان کرتے ہوئے بھی جھجھک نہیں رہا ہے۔ وزیروں کے بیانات ہوں یا پھر میڈیا کا شور کسی قسم کی کوئی جھجھک دیکھائی نہیں دیتی تو اس سب کے پچھے کا راز کیا ہے؟

مقبول مضامین

مقبول مضامین