مانیٹرنگ ڈیسک (مشرق نامہ) کینیڈا، آسٹریلیا اور پرتگال نے برطانیہ کے ساتھ شامل ہوتے ہوئے فلسطینی ریاست کو باضابطہ طور پر تسلیم کرلیا ہے۔ یہ اقدام ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اسرائیل مقبوضہ مغربی کنارے میں آبادکاری کے منصوبے کو وسعت دے رہا ہے اور غزہ میں اپنی جنگ کو تیز کر رہا ہے۔
اتوار کو کینیڈین وزیراعظم مارک کارنی نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ کینیڈا "فلسطین اور اسرائیل دونوں کے پرامن مستقبل کی تعمیر میں شراکت داری” کی پیشکش کرتا ہے۔
کارنی نے مزید کہا کہ اسرائیلی حکومت "منصوبہ بندی کے ساتھ فلسطینی ریاست کے قیام کے امکانات کو ختم کرنے پر کام کر رہی ہے”۔ ان کا کہنا تھا کہ فلسطینی اتھارٹی نے کینیڈا کو براہِ راست یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ آئندہ سال عام انتخابات منعقد کرے گی جن میں حماس کا کوئی کردار نہیں ہوگا، جبکہ نئی ریاست کو غیر عسکری بنایا جائے گا۔
اسی روز آسٹریلوی وزیراعظم انتھونی البانیز نے بھی فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔ آسٹریلیا نے کہا کہ کینیڈا اور برطانیہ کے ساتھ مل کر یہ فیصلہ دو ریاستی حل کی بحالی کی عالمی کوششوں کا حصہ ہے۔
آسٹریلیا کے بیان میں زور دیا گیا کہ دو ریاستی حل کی شروعات غزہ میں جنگ بندی اور قیدیوں کی رہائی سے ہونی چاہیے، تاہم حماس کا "فلسطین میں کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے”۔
بعدازاں پرتگالی وزیر خارجہ پاؤلو رانجل نے بھی نیویارک میں اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹرز پر اعلان کیا کہ پرتگال نے فلسطین کو تسلیم کرلیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ پرتگال کی مستقل اور بنیادی خارجہ پالیسی کی ترجمانی کرتا ہے۔
کینیڈا اور آسٹریلیا کے اعلانات برطانیہ کے ساتھ مربوط نظر آتے ہیں۔ برطانوی وزیراعظم کئیر اسٹارمر نے بھی اعلان کیا کہ ان کا ملک فلسطینی ریاست کو باضابطہ تسلیم کرتا ہے تاکہ "فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے لیے امن کی امید اور دو ریاستی حل” کو دوبارہ زندہ کیا جا سکے۔
ان فیصلوں کے بعد واضح ہوتا ہے کہ اسرائیل اپنی غزہ پر جنگ کے باعث بین الاقوامی سطح پر بڑھتی ہوئی تنہائی کا شکار ہے۔ فلسطینی وزارت صحت کے مطابق غزہ میں اسرائیلی کارروائیوں میں اب تک 65 ہزار سے زائد فلسطینی جاں بحق ہوچکے ہیں۔
اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے ان فیصلوں کو رد کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی ریاست کا قیام "ناممکن” ہے اور اس طرح کے اقدامات حماس کے لیے "انعام” کے مترادف ہیں۔
اب تک اقوام متحدہ کے 193 رکن ممالک میں سے 147 فلسطینی ریاست کو تسلیم کر چکے ہیں۔ تاہم فلسطین کو تاحال اقوام متحدہ میں باضابطہ نشست حاصل نہیں ہے کیونکہ اس کے لیے سلامتی کونسل کی منظوری ضروری ہے، جہاں امریکا اپنے ویٹو کے ذریعے اس اقدام کی مخالفت کر رہا ہے۔
یورپی ممالک سمیت دنیا کے کئی حصوں میں اسرائیل کے خلاف عوامی دباؤ بڑھ رہا ہے۔ بعض مغربی ممالک نے اسرائیل پر پابندیاں عائد کی ہیں جبکہ ہالینڈ، اسپین اور آئرلینڈ سمیت کئی ملکوں نے یورووژن سنگ کانٹیسٹ کے بائیکاٹ کا بھی اعلان کیا ہے اگر اسرائیل کو اگلے سال شامل کیا گیا۔
نیتن یاہو نے گزشتہ ہفتے اعتراف کیا تھا کہ اسرائیل "تنہائی” کا شکار ہے اور اسے اپنی معیشت کو اس صورتحال کے مطابق ڈھالنا ہوگا۔