ماسکو (مشرق نامہ) – روس کی فیڈرل میڈیکل اینڈ بایولوجیکل ایجنسی (FMBA) نے اعلان کیا ہے کہ کینسر ویکسین کے پری کلینیکل تجربات مکمل ہو گئے ہیں، جن میں اس کی افادیت اور محفوظ ہونے کے شواہد ملے ہیں۔ ادارے کا کہنا ہے کہ ویکسین سے جانوروں پر ہونے والے تجربات میں ٹیومر کے حجم اور بڑھنے کی رفتار میں 60 سے 80 فیصد تک کمی واقع ہوئی، اور بقا کی شرح بہتر ہوئی۔ اب یہ ویکسین ابتدائی طور پر کولوریکٹل کینسر کے خلاف استعمال کے لیے باضابطہ منظوری کی منتظر ہے۔
یہ اعلان FMBA کی سربراہ ویرونیکا اسکوورتسوا نے مشرقی اقتصادی فورم (EEF) ولادی ووستوک میں کرتے ہوئے کہا کہ تحقیق کئی سالوں پر محیط تھی، جن میں آخری تین سال لازمی پری کلینیکل مطالعے پر صرف کیے گئے۔ ان کے مطابق بار بار دی جانے والی خوراک محفوظ ثابت ہوئی اور نمایاں فوائد سامنے آئے۔ اس نے مزید کہا کہ ویکسین اب استعمال کے لیے تیار ہے اور صرف باضابطہ منظوری درکار ہے۔
اسکوورتسوا کے مطابق اس ویکسین کا پہلا استعمال کولوریکٹل کینسر کے لیے ہو گا، جبکہ ساتھ ہی گلیوبلاسٹوما اور میلانوما، بشمول آنکھوں کے میلانوما، کے لیے بھی ویکسین کی تیاری جاری ہے، جو ترقی کے جدید مراحل میں ہیں۔
ویکسین میں پیش رفت
FMBA نے 2024 کے آخر سے ہی عندیہ دینا شروع کر دیا تھا کہ نئی روسی قانون سازی کے تحت ذاتی نوعیت کی ادویات کے لیے 2025 میں کلینیکل استعمال شروع ہو سکتا ہے۔ تاہم تاحال کوئی پیئر ریویو شدہ ڈیٹا یا کلینیکل ٹرائل رجسٹری عوام کے سامنے پیش نہیں کی گئی، جس کا مطلب ہے کہ آزادانہ تصدیق صرف فیز ون انسانی تجربات کے بعد ہی ممکن ہو گی۔
یہ اعلان مشرقی اقتصادی فورم کے دسویں اجلاس کے موقع پر کیا گیا، جس میں 75 سے زائد ممالک سے 8 ہزار 400 سے زیادہ افراد نے شرکت کی۔ اس اجلاس کا موضوع تھا: "بعید مشرق: امن اور خوشحالی کے لیے تعاون”، جس میں روس نے نئے سائنسی اور اقتصادی منصوبے، بشمول بایوٹیکنالوجی کی ترقی، پیش کیے۔
ماہرین کے مطابق کینسر ویکسین عام حفاظتی ٹیکوں سے مختلف ہوتی ہیں۔ یہ خسرہ یا چکن پاکس جیسی وائرل بیماریوں کو روکنے کی بجائے مدافعتی نظام کو کینسر کے خلیات کو پہچاننے اور ان پر حملہ کرنے کی تربیت دیتی ہیں۔ دنیا میں پہلے ہی پروسٹیٹ اور مثانے کے کینسر کے لیے علاجی ویکسین موجود ہیں، جبکہ امریکہ اور یورپ میں ذاتی نوعیت کی ایم آر این اے پر مبنی ویکسین پر تحقیق جاری ہے۔
عالمی ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ اگرچہ FMBA کے نتائج حوصلہ افزا ہیں، لیکن شائع شدہ ڈیٹا کی عدم موجودگی شفافیت کی ضرورت کو اجاگر کرتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ متعدد کینسر ویکسینز پری کلینیکل تجربات میں تو کامیاب دکھائی دیتی ہیں، لیکن انسانی مراحل میں ان کی افادیت ثابت کرنا سب سے بڑی رکاوٹ رہتی ہے۔