دوحہ (مشرق نامہ) – قطر نے ایک بار پھر غزہ میں جنگ بندی کے لیے اپنی ثالثی کوششوں کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ حماس نے معاہدے کی شرائط قبول کر لی ہیں، تاہم اسرائیل تاحال جواب دینے سے گریزاں ہے۔
منگل کو قطری وزارتِ خارجہ نے ایک بیان میں واضح کیا کہ دوحہ جنگِ غزہ کے خاتمے تک ثالثی کی کوششیں جاری رکھے گا اور ایسے تمام اقدامات کے لیے تیار ہے جو جنگ بندی کے عمل کو آگے بڑھا سکیں۔
وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے زور دے کر کہا کہ مذاکرات کے مقام کو قطر رکاوٹ نہیں سمجھتا، اور دوحہ و قاہرہ دونوں ایسی کسی بھی مؤثر پلیٹ فارم کی حمایت کرتے ہیں جو امن عمل کو آگے بڑھا سکے۔
ترجمان کے مطابق حماس نے جن شرائط کو تسلیم کیا ہے وہ وہی ہیں جو اس سے قبل اسرائیل نے بھی قبول کی تھیں، مگر تل ابیب اب تک کوئی باضابطہ ردعمل دینے سے انکاری ہے۔ ترجمان نے کہا کہ اب گیند قابض کے کورٹ میں ہے اور اسرائیل کے موجودہ رویے سے واضح ہوتا ہے کہ وہ کسی معاہدے تک پہنچنے کا خواہاں نہیں۔
اب تک اسرائیل نے نہ تو اس تجویز کو قبول کیا ہے، نہ مسترد کیا ہے اور نہ ہی کوئی متبادل پیش کیا ہے۔ قطر نے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ تل ابیب پر دباؤ ڈالے تاکہ وہ واضح مؤقف اختیار کرے۔
قطر کا انتباہ: زمینی جارحیت بے نتیجہ رہے گی
قطری ترجمان نے مزید کہا کہ اسرائیلی جارحیت غزہ بھر میں شدت اختیار کر رہی ہے، تاہم اس سے کوئی ٹھوس نتائج حاصل نہیں ہوں گے۔
انہوں نے واضح کیا کہ قطر اسرائیلی میڈیا کی رپورٹس کو معتبر نہیں مانتا اور دوحہ جنگ بندی کی تجویز پر اسرائیل کے باضابطہ جواب کا انتظار کر رہا ہے، نہ کہ میڈیا میں شائع قیاس آرائیوں کا۔
دوسری جانب، اسرائیلی چینل 12 نے اطلاع دی کہ وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو نے ثالثوں کی تجویز پر باضابطہ جواب نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے، حالانکہ حماس اس پر پہلے ہی رضامند ہو چکی ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ امریکی مشرق وسطیٰ کے ایلچی اسٹیو وٹکوف نے بھی اسی تجویز کی حمایت واپس لے لی ہے اور بظاہر ثالثی کے عمل پر اعتماد کھو چکے ہیں۔
یہ پیشرفتیں اس وقت سامنے آئی ہیں جب غزہ پر اسرائیلی بمباری مسلسل جاری ہے اور انسانی بحران تیزی سے بڑھ رہا ہے، جس سے جنگ بندی مذاکرات کا مستقبل مزید غیر یقینی ہو گیا ہے۔
ٹرمپ کا متنازعہ دعویٰ
اس تناظر میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پیر کو دعویٰ کیا کہ غزہ میں جاری جنگ آئندہ دو سے تین ہفتوں میں "فیصلہ کن انجام” تک پہنچ جائے گی، حالانکہ اس کے کوئی شواہد یا انٹیلی جنس فراہم نہیں کیے۔
انہوں نے وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ میرا خیال ہے کہ اگلے دو سے تین ہفتوں میں آپ ایک اچھا اور فیصلہ کن انجام دیکھیں گے۔
تاہم یہ دعویٰ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اسرائیلی افواج غزہ شہر پر زمینی حملے کی تیاریوں کو مزید تیز کر رہی ہیں، حالانکہ حماس نے گزشتہ ہفتے عرب ریاستوں کی ثالثی میں تیار کردہ مرحلہ وار جنگ بندی منصوبہ پہلے ہی قبول کر لیا تھا، مگر اسرائیل تاحال اسے تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔