اسلام آباد (مشرق نامہ) – ترجمان دفترِ خارجہ سفیر شفاعت علی خان نے جمعہ کو بتایا کہ پاکستان اور چین نے باہمی، علاقائی اور کثیرالجہتی تعاون کو مزید فروغ دے کر اپنی "ہمہ موسمی اسٹریٹجک تعاون پر مبنی شراکت داری” کو مزید گہرا کرنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔
ہفتہ وار پریس بریفنگ کے دوران ترجمان دفترِ خارجہ نے بتایا کہ چین کے وزیرِ خارجہ اور کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کے پولٹ بیورو کے رکن، وانگ ای، نے پاکستان کے نائب وزیرِ اعظم و وزیرِ خارجہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار کی دعوت پر 21 اگست 2025 کو اسلام آباد کا دورہ کیا، جہاں انہوں نے چھٹی پاک-چین وزرائے خارجہ اسٹریٹجک ڈائیلاگ کی مشترکہ صدارت کی۔
ترجمان کے مطابق دونوں فریقین نے دوطرفہ تعلقات کے تمام پہلوؤں کا جامع جائزہ لیا، جن میں سی پیک فیز ٹو، تجارتی و معاشی تعلقات، کثیرالجہتی تعاون، عوامی سطح پر روابط اور اہم علاقائی و عالمی امور شامل تھے۔ اس موقع پر وزرائے خارجہ نے دوطرفہ و کثیرالجہتی فورمز پر قریبی رابطے اور ہم آہنگی برقرار رکھنے پر اتفاق کیا۔
دورے کے دوران چینی وزیرِ خارجہ نے صدر آصف علی زرداری، وزیرِ اعظم شہباز شریف اور چیف آف آرمی اسٹاف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر سے بھی ملاقاتیں کیں۔
صدرِ مملکت سے ملاقات میں آصف علی زرداری نے پاکستان کی خودمختاری، علاقائی سالمیت اور قومی ترقی کے لیے چین کی مسلسل حمایت پر اظہارِ تشکر کیا اور جموں و کشمیر کے مسئلے پر بیجنگ کے اصولی مؤقف کو سراہا۔ انہوں نے سی پیک کی اسٹریٹجک اہمیت پر بھی روشنی ڈالی جو صدر شی جن پنگ کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کا حصہ ہے۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف سے ملاقات کے دوران دونوں رہنماؤں نے بنیادی قومی مفادات پر باہمی حمایت کے عزم کا اعادہ کیا۔ وزیرِ اعظم نے اس موقع پر سی پیک فیز ٹو کے تحت تجارت، آئی سی ٹی، زراعت، صنعتی ترقی، معدنیات اور دیگر شعبوں میں چین کے ساتھ تعاون کے فروغ کے عزم کو دوہرایا۔
ترجمان نے بتایا کہ چینی وزیرِ خارجہ کی ملاقات میں چیف آف آرمی اسٹاف کے ساتھ علاقائی سلامتی، انسدادِ دہشت گردی اور دفاعی تعاون پر تفصیلی تبادلۂ خیال کیا گیا۔ دونوں ممالک نے علاقائی و عالمی سطح پر قریبی ہم آہنگی کو مزید مضبوط بنانے پر اتفاق کیا۔
انہوں نے کہا کہ چینی وزیرِ خارجہ کا یہ دورہ اعلیٰ سطحی رابطوں کے تسلسل کا حصہ تھا، جس کا مقصد پاک-چین شراکت داری کو مزید مستحکم بنانا ہے۔
ترجمان دفترِ خارجہ نے مزید بتایا کہ 20 اگست 2025 کو کابل میں پاکستان، چین اور افغانستان کے وزرائے خارجہ کا چھٹا سہ فریقی اجلاس منعقد ہوا، جس میں اسحاق ڈار، وانگ ای اور افغانستان کے قائم مقام وزیرِ خارجہ مولوی امیر خان متقی نے شرکت کی۔
انہوں نے کہا کہ تینوں ممالک نے مشترکہ انسدادِ دہشت گردی اقدامات کو مضبوط بنانے کے عزم کا اظہار کیا اور تجارت، ٹرانزٹ، صحت، تعلیم، ثقافت، انسدادِ منشیات اور سی پیک کو افغانستان تک توسیع دینے کے سلسلے میں تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا۔
اسی دوران نائب وزیرِ اعظم و وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار نے افغان قائم مقام وزیرِ خارجہ سے علیحدہ ملاقات بھی کی، جس میں سیاسی اور اقتصادی تعاون پر پیش رفت کا جائزہ لیا گیا، تاہم دہشت گردی کے خلاف ناکافی تعاون پر تشویش بھی ظاہر کی گئی۔
دفترِ خارجہ کے ترجمان نے مزید بتایا کہ نائب وزیرِ اعظم اسحاق ڈار نے 17 سے 19 اگست 2025 کے دوران برطانیہ کا سرکاری دورہ بھی کیا، جہاں انہوں نے مشرقِ وسطیٰ، افغانستان اور پاکستان کے لیے برطانوی پارلیمانی انڈر سیکرٹری حمش فولکنر، متعدد برطانوی نژاد پاکستانی ارکانِ پارلیمنٹ، لارڈ قربان حسین، کشمیری کمیونٹی رہنماؤں اور کامن ویلتھ سیکریٹری جنرل بیرونس شرلی بوچوی سے ملاقاتیں کیں۔ بیرونس بوچوی نے پاکستان کے دورے کی دعوت قبول کرلی۔
دورے کے دوران اسحاق ڈار نے پاکستان ہائی کمیشن لندن میں ڈیجیٹل لینڈ ریکارڈ سروسز اور پاسپورٹ کے لیے ون ونڈو سہولت کا بھی افتتاح کیا۔ انہوں نے برٹش پاکستانی وکلاء فورم سے خطاب کرتے ہوئے بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کی کوششوں کو پاکستان کے لیے "وجودی خطرہ” قرار دیا۔
ترجمان کے مطابق 12 اگست 2025 کو اسحاق ڈار نے امریکی محکمہ خارجہ کے قائم مقام کوآرڈینیٹر برائے انسدادِ دہشت گردی گریگوری لوگیرفو سے بھی ملاقات کی، جو پاک-امریکا انسدادِ دہشت گردی ڈائیلاگ کا حصہ تھی۔ دونوں فریقین نے دہشت گردی کے خلاف مشترکہ عزم کو دوہرایا، خاص طور پر بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے)، داعش خراسان اور دیگر گروہوں کے خطرات کے خلاف تعاون پر زور دیا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے امریکا کے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے جس کے تحت بی ایل اے اور اس کی مجید بریگیڈ کو غیر ملکی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے، جسے پاکستان کی قربانیوں اور عالمی سلامتی کے لیے انسدادِ دہشت گردی کے اقدامات کا اعتراف قرار دیا گیا۔
دفترِ خارجہ کے ترجمان نے مزید بتایا کہ 18 اگست 2025 کو بیجنگ میں اسلحہ کنٹرول، عدم پھیلاؤ اور تخفیفِ اسلحہ پر دسویں دوطرفہ مشاورت کا انعقاد ہوا، جس کی قیادت پاکستان کی جانب سے وزارتِ خارجہ کے ایڈیشنل سیکریٹری طاہر اندراوی نے جبکہ چین کی جانب سے وزارتِ خارجہ کے اسلحہ کنٹرول ڈپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر جنرل سن ژیابو نے کی۔ دونوں ممالک نے عالمی و علاقائی سلامتی، جنوبی ایشیا میں اسٹریٹجک استحکام اور ایٹمی ٹیکنالوجی و خلا کے پُرامن استعمال پر تبادلۂ خیال کیا۔ آئندہ اجلاس 2026 میں پاکستان میں ہوگا۔
ترجمان نے سندھ طاس معاہدے کے حوالے سے 8 اگست 2025 کو عالمی ثالثی عدالت کے فیصلے کا خیرمقدم کیا، جس میں پاکستان کے مؤقف کو تسلیم کرتے ہوئے بھارت کی یکطرفہ کوششوں کو مسترد کر دیا گیا۔
ترجمان نے اسرائیل کے اس بیانیے کی شدید مذمت کی جس میں "گریٹر اسرائیل” کے قیام اور فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کی بات کی گئی، اور اسے بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا۔
بھارتی وزارتِ خارجہ کے حالیہ بیان پر ردعمل دیتے ہوئے ترجمان دفترِ خارجہ نے کہا کہ پاکستان بے بنیاد الزامات کو مکمل طور پر مسترد کرتا ہے، جو نئی دہلی کے "حقائق مسخ کرنے کے دائمی رجحان” کا ایک اور ثبوت ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کا "ایٹمی بلیک میلنگ” کا بیانیہ گمراہ کن ہے اور اس کا مقصد پاکستان کو بدنام کرنا ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان ایک ذمہ دار ایٹمی ریاست ہے، جس کا کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم مکمل سول نگرانی میں ہے اور ہمیشہ تحمل اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرتا آیا ہے۔
ترجمان نے کہا کہ پاکستان کی قابلِ اعتماد انسدادِ دہشت گردی کی کوششیں عالمی سطح پر تسلیم کی گئی ہیں اور پاکستان کی سکیورٹی فورسز نے نہ صرف ملک بلکہ خطے اور دنیا کے استحکام کے لیے دہشت گردی کے خلاف ڈھال کا کردار ادا کیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ بھارت ہر بار نامناسب حقائق سامنے آنے پر جنگی جنون اور اشتعال انگیزی کا سہارا لیتا ہے، جو نئی دہلی کی سفارتی کمزوری کی عکاسی کرتا ہے۔
ترجمان دفترِ خارجہ نے زور دیا کہ پاکستان عالمی برادری کا ذمہ دار رکن بن کر اپنا کردار ادا کرتا رہے گا، تاہم کسی بھی بھارتی جارحیت یا خودمختاری کی خلاف ورزی پر فوری اور بھرپور جواب دیا جائے گا اور کشیدگی کی تمام تر ذمہ داری بھارتی قیادت پر عائد ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ بھارت اشتعال انگیز بیانات دینے کے بجائے اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں کو پورا کرے، خصوصاً خطے کے امن، انسدادِ دہشت گردی اور سندھ طاس معاہدے پر عمل درآمد کے حوالے سے۔