بیجنگ (مشرق نامہ) – چین کے سرکاری میڈیا کی فوٹیج کے مطابق تبتی علاقے ہوہ شیلی کے پہاڑی خطے میں ایک حقیقی شکل و صورت والا ’’روبوٹ ہرن‘‘ گھوم رہا ہے، جو ملک کے پھیلتے ہوئے نگرانی کے نیٹ ورک کا حصہ ہے۔
موٹی بھوری کھال اور ہرنی جیسی آنکھوں والا یہ 5G اور مصنوعی ذہانت سے لیس آلہ نایاب تبتی ہرن سے نہایت مشابہ ہے اور اپنے سینسرز کے ذریعے علاقے کو اسکین کرتا ہے۔ شِنہوا کے مطابق یہ روبوٹ شِنہوا نیوز ایجنسی، چائنیز اکیڈمی آف سائنسز اور ہانگزو کی کمپنی ڈیپ روبوٹکس نے تیار کیا ہے۔ یہ حقیقی وقت میں نگرانی کرتے ہوئے اس نایاب نسل کے ہجرت، خوراک اور افزائش نسل کے رویوں کا ریکارڈ رکھتا ہے۔
چین اپنی روبوٹکس صنعت کو درجنوں ارب ڈالر کی سبسڈیز دے رہا ہے اور حال ہی میں 2025 ورلڈ روبوٹ کانفرنس کی میزبانی بھی کر چکا ہے۔ تبت میں 5G سروس 2019 میں شروع ہوئی اور 2022 تک اس کے صارفین کی تعداد دس لاکھ تک پہنچ گئی۔ ریاستی میڈیا کے مطابق 2023 کے اواخر میں گوگمو میں ایک بیس اسٹیشن کے قیام سے یہ کوریج ہر ضلع تک پہنچ گئی۔
جنگلی حیات کی نگرانی سے ہٹ کر یہی انفراسٹرکچر دیگر اے آئی ایپلی کیشنز، جیسے ڈرونز، ٹیلی میڈیسن اور ’’سمارٹ‘‘ یاک (پہاڑی بیل) فارمنگ کی سہولت فراہم کرتا ہے۔
بیجنگ نے تبت میں بھاری سرمایہ کاری کی ہے، جس کے تحت اس خطے کو بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو میں ضم کیا گیا ہے، وسطی ایشیا کے ساتھ تجارتی روابط کو مضبوط بنایا گیا ہے، ساتھ ہی نگرانی کا دائرہ اور ڈیجیٹل موجودگی ہمسایہ بھارت کی سرحد تک بڑھا دی گئی ہے۔
جولائی میں سینٹر فار اسٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز کی ایک رپورٹ میں ایسے واقعات کی نشاندہی کی گئی جن میں چین نے مقامی ٹیلی کام نیٹ ورکس کو استعمال کرتے ہوئے نیپال میں اختلافِ رائے رکھنے والوں کی نگرانی کی اور سائبر چوری کی سرگرمیوں میں ملوث رہا۔