آسٹریلوی وزیرِاعظم انتھونی البانی نے اسرائیلی وزیرِاعظم بنیامین نیتن یاہو پر الزام لگایا ہے کہ وہ غزہ میں جاری انسانی تباہی کے بارے میں "حقیقت سے انکاری” ہیں۔ یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب آسٹریلیا نے پہلی بار ایک فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا، جو "اسرائیل” اور آسٹریلیا کے تعلقات میں ایک تاریخی موڑ ہے۔
وزیرِاعظم البانی نے یہ تبصرہ منگل کے روز کیا، جو اس اعلان کے ایک دن بعد تھا کہ آسٹریلیا فلسطینی ریاست کو تسلیم کرے گا۔ یہ اعلان تقریباً تین برسوں سے جاری سفارتی کشیدگی، بڑی پالیسی تبدیلیوں اور اسرائیلی حکام پر بے مثال پابندیوں کا نقطۂ عروج سمجھا جا رہا ہے۔
البانی کے تازہ کلمات اس فون کال کے بعد سامنے آئے جو جمعرات کو نیتن یاہو سے ہوئی تھی، جس میں اسرائیلی رہنما نے مبینہ طور پر غزہ میں انسانی صورتحال پر تشویش کو رد کیا۔ البانی نے آسٹریلوی سرکاری نشریاتی ادارے اے بی سی کو بتایا کہ "انہوں نے مجھ سے دوبارہ وہی دہرایا جو وہ عوامی سطح پر بھی کہہ چکے ہیں، یعنی معصوم شہریوں کو پیش آنے والے نتائج سے انکار۔”
وزیرِاعظم نے فلسطینی ریاست کے باضابطہ اعتراف کو نیتن یاہو کی حکومت سے بڑھتی ہوئی مایوسی سے جوڑا اور الزام لگایا کہ تل ابیب کی حکومت بین الاقوامی قوانین کو نظرانداز کر رہی ہے اور اتحادی ممالک کی تنبیہوں کو بھی خاطر میں نہیں لاتی۔
القدس پالیسی کی واپسی سے فلسطینی ریاست کے اعتراف تک
اکتوبر 2022 سے "اسرائیل” اور آسٹریلیا کے تعلقات میں تناؤ بڑھتا گیا، جب بائیں بازو کی البانی حکومت نے دائیں بازو کی موریسن انتظامیہ کے 2018 میں کیے گئے فیصلے کو منسوخ کر دیا، جس میں مغربی القدس کو "اسرائیل” کا دارالحکومت تسلیم کیا گیا تھا۔ اس وقت وزیرِخارجہ پینی وونگ نے اس فیصلے کو ووٹ حاصل کرنے کی "موقع پرستانہ چال” قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ اس سے آسٹریلیا اکثریتی عالمی برادری سے الگ ہو گیا تھا۔
اکتوبر 2023 میں غزہ پر جنگ کے آغاز نے اس خلیج کو مزید گہرا کر دیا۔ اگست 2025 میں آسٹریلیا نے تصدیق کی کہ وہ ستمبر میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں فلسطینی ریاست کو باضابطہ طور پر تسلیم کرے گا۔ نیتن یاہو نے اس اقدام کو "شرمناک” قرار دیتے ہوئے اسے آسٹریلیا میں بڑھتی ہوئی یہود دشمنی سے جوڑا۔
عالمی سطح پر آسٹریلیا اب ان 147 اقوامِ متحدہ کے رکن ممالک میں شامل ہو گیا ہے جنہوں نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کیا ہے یا تسلیم کرنے کا عہد کیا ہے۔
تسلیم کرنے کی شرائط
آسٹریلیا کا اعتراف بعض شرائط سے مشروط ہے، جن میں شامل ہیں:
حکومت میں حماس یا دیگر مسلح گروہوں کا کوئی کردار نہ ہو۔
غزہ کا غیر عسکری ہونا۔
عام انتخابات کا انعقاد۔
پابندیاں، آئی سی سی کی حمایت اور پالیسی میں بڑے فیصلے
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ حالیہ برسوں میں کینبرا نے "اسرائیل” کے خلاف مزید سخت مؤقف اپنایا ہے۔ جون 2025 میں آسٹریلیا نے کینیڈا، نیوزی لینڈ، ناروے اور برطانیہ کے ساتھ مل کر اسرائیلی شدت پسند وزراء ایتامار بن گویر اور بیتسلئیل سموٹریچ پر پابندیاں عائد کیں، جن پر مغربی کنارے میں "انتہا پسندانہ تشدد کو بھڑکانے” کا الزام ہے۔
یہ پابندیاں اس سے پہلے لگائی گئی ان کارروائیوں کے بعد آئیں جن میں غیر قانونی آبادکاروں کے خلاف اقدامات اور بین الاقوامی فوجداری عدالت کی خودمختاری کی بھرپور حمایت شامل تھی، خاص طور پر جب عدالت نے 2024 میں نیتن یاہو اور سابق وزیرِ سلامتی یوآف گیلنٹ کے وارنٹِ گرفتاری جاری کیے۔
ملکی سطح پر یہ فیصلہ عوامی رائے میں تبدیلی کی عکاسی کرتا ہے۔ سڈنی میں غزہ کے لیے امداد کے مطالبے پر ہونے والے مظاہروں میں دسیوں ہزار افراد شریک ہوئے، جب کہ رائے شماری سے ظاہر ہوا کہ آسٹریلوی عوام کی اکثریت انسانی بحران کے حل کے لیے فوری اقدامات کی حامی ہے۔
تاہم حزبِ مخالف کی رہنما سوسن لی نے خبردار کیا ہے کہ یہ اقدام امریکہ کے ساتھ تعلقات کو نقصان پہنچا سکتا ہے اور "اسرائیل” کے حوالے سے دہائیوں سے جاری دو جماعتی پالیسی کو کمزور کر سکتا ہے۔