جمعہ, اکتوبر 10, 2025
ہومبین الاقوامیاسپین کا بلدیہ کو مذہبی اجتماعات پر پابندی ختم کرنیکا حکم

اسپین کا بلدیہ کو مذہبی اجتماعات پر پابندی ختم کرنیکا حکم
ا

میڈرڈ (مشرق نامہ) – اسپین کی مرکزی حکومت نے جُمِیلا (Jumilla) نامی قصبے کو حکم دیا ہے کہ وہ عوامی کھیل مراکز میں مذہبی اجتماعات پر عائد پابندی ختم کرے، اسے مسلمانوں کے خلاف امتیازی اقدام اور مذہبی آزادی کی خلاف ورزی قرار دیا گیا ہے۔

مرکزی حکومت نے صوبہ مُرسیہ کے اس قصبے کی بلدیہ کو ہدایت دی کہ وہ یہ پابندی واپس لے، اور اسے ’’امتیازی‘‘ اور آئین میں دی گئی مذہبی آزادی کے حق کی صریح خلاف ورزی قرار دیا۔

علاقائی پالیسی کے وزیر آنخیل وِکتور تورِس نے پیر کے روز کہا کہ عدم برداشت کے معاملے میں ’’آدھے اقدامات‘‘ کی کوئی گنجائش نہیں، اور یہ کہ سیاسی جماعتیں یہ طے نہیں کر سکتیں کہ کس کو عبادت کی آزادی حاصل ہے اور کس کو نہیں۔

قدامت پسند قیادت والی جُمِیلا بلدیہ نے یہ پابندی گزشتہ ہفتے منظور کی تھی، جس میں انتہائی دائیں بازو کی جماعت ووکس (Vox) کی اصل تجویز سے عیدالاضحیٰ کا براہِ راست ذکر ہٹا دیا گیا، لیکن ساتھ ہی یہ شرط شامل کر دی گئی کہ بلدیہ کے کھیل مراکز میں ’’کسی بھی ایسے ثقافتی، سماجی یا مذہبی پروگرام کی اجازت نہیں ہوگی جو بلدیہ کا اپنا نہ ہو‘‘۔

قصبے کی کل 27 ہزار آبادی میں تقریباً 1,500 مسلمان رہتے ہیں، جو برسوں سے ان مقامات پر عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ کی نماز ادا کرتے آئے ہیں۔ یہ اقدام ووکس کی حمایت حاصل کرنے کے بدلے عوامی پارٹی (PP) کے میئر کے بجٹ کو منظور کرانے کے لیے کیا گیا، اور اسے وسیع پیمانے پر مسلم کمیونٹی کو نشانہ بنانے کے طور پر دیکھا گیا۔

مذہبی اور سماجی حلقوں کی مذمت

اس فیصلے کی پورے اسپین میں مذمت کی گئی۔ ایک سرکردہ مسلم تنظیم کے سربراہ نے اسے ’’ادارہ جاتی اسلاموفوبیا‘‘ قرار دیا، جب کہ مہاجرت کی وزیر ایلما سائز نے اسے ’’شرمناک‘‘ کہا اور نشاندہی کی کہ مسلمان طویل عرصے سے ملک کی معیشت اور ثقافت میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔

کیتھولک چرچ نے بھی اس پابندی کو مذہبی آزادی سے متصادم قرار دیا، جب کہ اسپین کی یہودی کمیونٹیز کی فیڈریشن نے اسے ’’ایک سنگین جمہوری پسپائی‘‘ کہا۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ اقدام انتہائی دائیں بازو کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کی عکاسی کرتا ہے، اور عوامی پارٹی پر الزام ہے کہ اس نے ووکس سے سیاسی حمایت برقرار رکھنے کے لیے سمجھوتہ کیا۔ وزیر تورِس نے کہا کہ اس فیصلے نے اسپین کی ساکھ کو نقصان پہنچایا اور پُرامن بقائے باہمی کے عشروں پر پانی پھیر دیا۔

اسپین کی فیڈریشن آف اسلامک ریلیجس اینٹیٹیز کے صدر، مونیر بن جلون اندلوسی اظہری نے خبردار کیا کہ یہ اقدام ووٹ حاصل کرنے کے لیے معاشرتی تقسیم کو ہوا دینے کی ایک وسیع تر سیاسی حکمت عملی کا حصہ ہے۔

یہ تنازع ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب جُمِیلا سے تقریباً 100 کلومیٹر دور قصبے تورے-پاشیکو میں نسلی فسادات پھوٹ پڑے، جہاں مقامی گروہوں نے ایک بزرگ شخص پر حملے کے بعد غیرملکی نژاد باشندوں کو نشانہ بنایا۔ حکومتی نگرانی کے مطابق اس واقعے کے بعد سوشل میڈیا پر نسلی نفرت انگیز پیغامات میں 1,500 فیصد اضافہ ہوا۔

مرکزی حکومت نے جُمِیلا کو حکم دیا ہے کہ وہ ایک ماہ کے اندر پابندی ختم کرے، بصورت دیگر قانونی کارروائی کے تمام اختیارات استعمال کیے جائیں گے۔

مقبول مضامین

مقبول مضامین