جمعہ, اکتوبر 10, 2025
ہومبین الاقوامیحزب اللہ کو غیر مسلح کرنیکی امریکی دباؤ کے باوجود لبنان کی...

حزب اللہ کو غیر مسلح کرنیکی امریکی دباؤ کے باوجود لبنان کی حزب اللہ کی حمایت
ح

مانیٹرنگ ڈیسک (مشرق نامہ): واشنگٹن کی دھمکیوں کے باوجود لبنان میں حزب ‌اللہ کے ہتھیار بدستور قومی خودمختاری کا دفاعی ستون سمجھے جا رہے ہیں، لبنانی حکومت اور عوامی مزاحمتی قوتیں کسی یک طرفہ ڈکٹیشن کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں۔

امریکہ کی جانب سے لبنان کو دیئے گئے مجوزہ معاہدے میں واشنگٹن نے سب سے زیادہ زور حزب‌ اللہ کو غیر مسلح کرنے پر دیا ہے، حالانکہ وہ صہیونی حکومت کی جانب سے لبنان پر ہونے والے حملوں کو روکنے کی کوئی ضمانت دینے کو تیار نہیں۔ امریکی ایلچی ٹام باراک کی طرف سے دیے گئے اس مجوزہ مسودے میں بنیادی تقاضا یہی ہے کہ حزب‌اللہ سے فوری طور پر اسلحہ واپس لیا جائے، جس پر لبنان کی جانب سے باقاعدہ ردعمل دیا گیا۔

روزنامہ الاخبار کے مطابق امریکہ کی طرف سے لبنان کے جواب پر جو ردعمل سامنے آیا ہے، وہ سخت دھمکی آمیز ہے۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ یہ پیشکش حتمی ہے، اس میں کوئی ترمیم یا بات چیت ممکن نہیں، بیروت یا تو اسے قبول کرے یا سنگین نتائج بھگتنے کے لیے تیار رہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ٹام باراک کا یہ مسودہ بظاہر لبنان کی تجاویز پر مبنی ہے، لیکن اس میں ترتیب کو اس طرح بدلا گیا ہے کہ سب سے پہلے حزب‌اللہ کو غیر مسلح کرنے کی شرط رکھی گئی ہے، جسے باقی تمام نکات پر مقدم قرار دیا گیا ہے۔ اس کے بعد صہیونی حکومت کے ساتھ جنگ بندی، سرحدوں کا تعین، لبنانی قیدیوں کی رہائی اور جنوبی لبنان سے اسرائیلی انخلا کی بات کی گئی ہے۔ سب کے آخر میں ہی لبنان کی تعمیر نو اور معاشی مدد کی گفتگو ہوگی۔ یعنی امریکہ کا موقف یہ ہے کہ حزب‌اللہ کا اسلحہ واپس لیے بغیر کسی بھی دوسرے موضوع پر بات چیت نہیں ہو سکتی۔ اس مسودے کو ایک قسم کا جبری ایجنڈا سمجھا جا رہا ہے، جو مکمل طور پر صہیونی حکومت کے مفادات پر مبنی ہے اور لبنان کی خودمختاری کو نظر انداز کیا گیا ہے۔

دوسری جانب لبنان میں دو بیانیے سامنے آ رہے ہیں: ایک بیانیہ جوزف عون کی قیادت میں تیار کردہ وزارتی بیان ہے، جو حزب‌اللہ کے اسلحے کو ملکی دفاع کا حصہ مانتا ہے، جبکہ دوسرا بیانیہ امریکی ڈکٹیشن کا عکاس ہے، جو حزب‌اللہ کو کمزور کرنے کے صہیونی منصوبے کا تسلسل ہے۔

ذرائع کے مطابق حزب‌اللہ کو صدر جمہور اور وزیر اعظم نواف سلام سے ملاقاتوں کے ذریعے اشارہ ملا ہے کہ حکومت فی الحال مزاحمت کو غیر مسلح کرنے کا کوئی حتمی فیصلہ یا ڈیڈ لائن مقرر کرنے کے حق میں نہیں۔ مختلف فارمولے زیرِ غور ہیں تاکہ داخلی کشیدگی کو کم کیا جا سکے، جن میں سے ایک یہ ہے کہ اسلحے کے معاملے کو اعلی دفاعی کونسل کے سپرد کردیا جائے، تاہم اس پر بھی کچھ حلقوں نے تحفظات کا اظہار کیا ہے کہ اس طرح جوزف عون اکیلے تمام بوجھ کا سامنا کریں گے۔

لبنان میں سیاسی مشاورت دو محوروں پر جاری ہے: ایک طرف صدر، وزیر اعظم اور اسپیکر کے درمیان مشورے ہو رہے ہیں، دوسری طرف حزب‌اللہ اور صدارتی محل کے درمیان روابط برقرار ہیں۔ الاخبار نے انکشاف کیا ہے کہ جوزف عون کے قریبی افراد حزب‌اللہ کے رہنماؤں سے مل چکے ہیں اور مختلف ممکنہ منظرناموں پر بات چیت کی جا رہی ہے۔

باخبر ذرائع کے مطابق حزب‌ اللہ نے حکومت کو اپنی پالیسی واضح کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے اور وہ سرکاری فورمز پر اپنی رائے کا دفاع کرے گی۔ سابق لبنانی وزرائے اعظم، بشمول نجیب میقاتی، کیساتھ مشاورت بھی جاری ہے تاکہ ملکی خودمختاری اور قومی سلامتی کو متوازن رکھنے والا کوئی مشترکہ لائحہ عمل تیار کیا جاسکے۔

حزب‌ اللہ کا کہنا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی قرارداد 1701 کی پابند ہے، لیکن جن ممالک نے اس قرارداد کی ضمانت دی تھی، وہ اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اب وہ یہ بھی ضمانت نہیں دے رہے کہ اگر حزب‌اللہ نے اسلحہ رکھ دیا تو صہیونی حکومت دوبارہ لبنان پر حملہ نہیں کرے گی۔ تو پھر یہ ضمانت کون دے گا؟

آخر میں حزب‌ اللہ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ جوزف عون کے بیان کردہ نکات یعنی اسرائیلی انخلا، لبنانی قیدیوں کی رہائی، جارحیت کا خاتمہ اور ملکی تعمیر نو کو بنیادی ترجیح حاصل ہے اور حزب‌اللہ کا اسلحہ ایک داخلی مسئلہ ہے جس پر قومی مشاورت اور حکمت عملی کے ذریعے بات ہونی چاہیے، کیونکہ یہ اسلحہ لبنان کو بیرونی خطرات سے بچانے کا بنیادی ذریعہ ہے۔

مقبول مضامین

مقبول مضامین