اقوامِ متحدہ نے اس رپورٹ پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے جس ک مطابق اسرائیلی حکومت پورے غزہ پٹی پر "مکمل فوجی قبضے” کی کوشش کر رہی ہے۔ عالمی ادارے نے اس اقدام کو ایک تباہ کن سانحے کی جانب پیش قدمی قرار دیا ہے۔
منگل کے روز اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے، اقوامِ متحدہ کے اسسٹنٹ سیکریٹری جنرل میروسلاو یینچا نے کہا کہ اگر یہ رپورٹس درست ہیں، تو اس کے نتائج تباہ کن ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ بین الاقوامی قانون اس حوالے سے بالکل واضح ہے؛ غزہ فلسطینی ریاست کے مستقبل کا ایک ناقابلِ تقسیم حصہ ہے اور اسے ایسا ہی رہنا چاہیے۔
یہ بیان اس وقت سامنے آیا ہے جب اسرائیلی حکومت اکتوبر 2023 سے جاری اپنی نسل کش جنگ کے ذریعے غزہ میں ہزاروں فلسطینیوں — جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے — کو مسلسل بمباری اور قحط کے ذریعے موت کے گھاٹ اتار چکی ہے، اور اب وہ اس علاقے پر مکمل قبضے کی کوشش کر رہی ہے۔
اس جنگ کے دوران تل ابیب نے ایسے اہداف کو آگے بڑھایا ہے جن میں حماس مزاحمتی تحریک کو ختم کرنا اور غزہ کے باسیوں کو ہمسایہ ممالک کی طرف جبراً ہجرت پر مجبور کرنا شامل ہے۔
اسرائیلی میڈیا رپورٹس کے مطابق، وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے حالیہ ملاقات میں اپنے حکومتی عہدیداروں کو بتایا کہ وہ غزہ کو دوبارہ اسرائیلی قبضے میں لانا چاہتے ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ اسرائیلی فوج نے 2005 میں غزہ سے انخلا کیا تھا، جس کے بعد حماس نے انتخابات میں بھاری کامیابی حاصل کر کے حکومت سنبھالی تھی۔
تاہم، موجودہ نسل کش جنگ سے قبل بھی اسرائیلی حکومت نے غزہ پر کئی خونی جنگیں مسلط کیں اور مکمل ناکہ بندی کے ذریعے وہاں کی زندگی مفلوج کر دی۔
چین کا اسرائیل کو سخت پیغام: خطرناک اقدامات بند کرے
منگل کے روز سلامتی کونسل کے اسی اجلاس میں چین کے نائب مندوب برائے اقوامِ متحدہ، گینگ شوانگ نے اسرائیلی عزائم کی مذمت کرتے ہوئے ان خطرناک اقدامات کو فوری بند کرنے اور فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔
انہوں نے زور دیا اور کہا کہ ہم بااثر ممالک سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ حرکت میں آئیں۔
یہ بات امریکی حکومت کی طرف واضح اشارہ تھی جو اسرائیل کی اس نسل کش جنگ کو بے مثال عسکری اور سفارتی امداد فراہم کر رہی ہے، ساتھ ہی یورپی اتحادی بھی اس میں شریک ہیں۔
یینچا نے یہ بھی کہا کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ پر مکمل قبضے کی کوشش وہاں موجود یرغمالیوں کی زندگیوں کو مزید خطرے میں ڈال سکتی ہے، جن میں سے درجنوں اسرائیلی حملوں کے دوران ہلاک ہو چکے ہیں۔
اسرائیلی یرغمالی کے بھائی کا جذباتی بیان
یرغمالی ایلے ڈیوڈ کے بھائی نے اپنے بھائی کی کمزوری اور بھوک سے نڈھال حالت کی تصاویر پیش کیں، جو اسرائیلی حکومت کی جانب سے غزہ میں خوراک اور پانی کی ترسیل روکنے کا نتیجہ ہے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ ہر لمحہ تاخیر ہمیں ایک المناک انجام کے قریب لا رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ میرے والد سو نہیں سکتے، اور میری ماں کی آنکھیں روتے روتے خشک ہو چکی ہیں…
اسرائیلی وزیرِ خارجہ کا الزام: فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا رکاوٹ بنا
دوسری طرف، اسرائیلی وزیرِ خارجہ گدعون سار نے ان ممالک کو تنقید کا نشانہ بنایا جنہوں نے فلسطین کی ریاست کو تسلیم کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس اقدام نے قیدیوں کے تبادلے کی ڈیل کو "قتل” کر دیا ہے۔
انہوں نے نیتن یاہو اور دیگر اسرائیلی حکام کی جانب سے مذاکرات میں رکاوٹ ڈالنے کے الزامات کی سختی سے تردید کی، حالانکہ خود اسرائیلی عہدیدار بھی اس کی تصدیق کر چکے ہیں۔
اسی روز اطلاعات سامنے آئیں کہ اسرائیل کے 20 سے زائد سابق عہدیداروں نے غزہ پر مکمل قبضے کو ناقابلِ عمل قرار دے کر مسترد کر دیا، اور کہا کہ اسرائیلی حکومت درحقیقت شکست کے دہانے پر کھڑی ہے۔