یمن (مشرق نامہ) – انقلاب کے قائد کی جانب سے جمعرات کے روز ای غیرمعمولی اور تاریخی خطاب میں عالمی ضمیر—بالخصوص عرب و اسلامی دنیا—کو ایک کڑے امتحان سے گزرنے کی یاد دہانی کرائی گئی، جس میں انہوں نے اہم پیغامات دیے اور انسانی تاریخ کے بدترین جرائم اور المیوں پر عالمی خاموشی پر شدید حیرت کا اظہار کیا۔
جناب سید عبدالملک الحوثی نے اپنے خطاب میں صہیونی جارحیت، نسل کش جنگ، اور غزہ پر مسلط کردہ بھوک کی ناکہ بندی جیسے سنگین معاملات پر روشنی ڈالی—جن سب کا سامنا دنیا بھر، عرب دنیا اور اسلامی دنیا کی بے مثال خاموشی کے سائے میں کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے فلسطین سے متصل ریاستوں، بالخصوص خلیجی ریاستوں—جن میں سعودی عرب بھی شامل ہے—کو فلسطینی کاز سے غداری کرنے والے سب سے نمایاں غدار اور کٹھ پتلی حکمرانوں کے طور پر اُجاگر کیا۔ انہی ریاستوں سے طیارے، ٹینک اور ہر قسم کی حمایت اسرائیل کو فراہم کی جا رہی ہے۔
انہوں نے سوال کیا کہ یہ حکومتیں اپنے ہی بھائیوں اور اپنی ہی قوم کے خلاف اسرائیلی دشمن کی ہر طرح سے مدد کیسے فراہم کر سکتی ہیں؟ عرب دنیا کی یہ غداری اور شراکت داری فلسطینی عوام کے دل پر گہرا زخم چھوڑ گئی ہے۔
عرب دنیا کی غداری اور شراکت کے نتائج
قائد انقلاب نے زور دیا کہ فلسطینی عوام عرب دنیا کی غداری اور شراکت داری سے شدید مجروح ہیں، اور واضح کیا کہ مصری عوام—جو سب سے بڑی عرب آبادی ہے—بیڑیاں پہنے ہوئے ہیں؛ نہ کوئی آواز ہے، نہ کوئی موجودگی، نہ ہی کوئی مؤقف۔
انہوں نے کہا کہ فلسطین کی ہمسایہ ریاستیں، سرکاری طور پر اور عوامی طور پر، اہم کردار ادا کر سکتی تھیں، اور خبردار کیا کہ ذمہ داری سے انکار اور چشم پوشی اس امت کو—نہ اس کی عوام کو، نہ ہی اس کی حکومتوں کو—دنیا میں سخت نتائج سے بچا سکے گی۔
سید عبدالملک نے اشارہ کیا کہ بہت سی اقوام اور حکومتیں یہ سمجھتی ہیں کہ ان کی بے عملی انہیں محفوظ رکھے گی، مگر اللہ تبدیلی پیدا کرتا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ جب اقوام اور حکومتیں دنیا میں سزا کا سامنا کریں گی، تب انہیں احساس ہو گا کہ ان کی غداری نے نہ انہیں فائدہ دیا، نہ ہی انہیں بچایا۔
انہوں نے کہا کہ جتنا زیادہ عرب دنیا کی غداری اور شراکت داری کے باعث اسرائیلی دشمن فلسطینی عوام پر ظلم کرتا ہے، اتنی ہی زیادہ امت کی ذمہ داری بڑھتی جاتی ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ فلسطینی عوام پر ہونے والے ظلم کو روزمرہ کے معمولات کے طور پر لینا اس امت کے لیے ایک خطرناک روش ہے۔
عرب و اسلامی اقوام سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اے مسلمانو! یہ مت سمجھو کہ حساب اور سزا صرف نماز اور روزے کے لیے ہے۔ جب امت اپنی غفلت، غداری، اور شراکت داری سے دنیا کے بدترین جرائم میں شریک ہو جاتی ہے تو وہ خود کو شدید سزا کے لیے پیش کرتی ہے۔
فتنہ پرور اسرائیل کے حقیقی دشمن کے خلاف نہیں اٹھتے
سید عبدالملک نے زور دیا کہ اللہ کی راہ میں جہاد ضروری ہے تاکہ ظلم اور سرکشی کو روکا جا سکے، اور حق، انصاف، اور نیکی کا قیام ہو۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر واجب ہے، کیونکہ جو کچھ اسرائیلی دشمن کر رہا ہے وہ زمین پر بدترین برائیوں میں شامل ہے—ورنہ گناہ بہت بڑا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ کچھ عرب امریکیوں اور اسرائیلیوں کے تیار کردہ فتنوں میں متحرک ہیں، جیسا کہ ہمارے خطے میں تکفیری فتنے کے ساتھ ہوا—اربوں ڈالر خرچ ہوئے، اور ان کی آوازیں دنیا بھر میں گونجیں۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ نفرت، بغض، تکفیر، اور فرقہ واریت پر مبنی آوازیں فلسطینی عوام کی حمایت کے لیے بلند نہیں ہوتیں۔ بلکہ، صہیونی یہودیوں نے اپنی مختلف شاخوں کے ذریعے امت کے اندر عوامی ردعمل کو دبا دیا ہے۔ لیکن جب بات امت کے اندر فتنہ کی ہو تو ہم دیکھتے ہیں کہ وہی لوگ جو اسرائیلی دشمن کے سامنے بہرے، گونگے اور اندھے ہوتے ہیں، اچانک سرگرم ہو جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جو لوگ اسرائیلی دشمن کے سامنے خاموش رہتے ہیں، وہی امت کے اندر فتنہ کے لیے اپنی آوازیں بلند کرتے ہیں، اور اسلامی میدان میں شور پیدا کرتے ہیں۔ لیکن جب بات ان لوگوں کی مخالفت کی ہو جو فلسطین کے ساتھ کھڑے ہیں، تو یہی فتنہ پرور زبردست وسائل، وسیع تحرکات، اور سنجیدہ اقدامات کے ساتھ سامنے آتے ہیں۔
فلسطینی مسئلہ میں کیا کمی ہے؟
قائد نے سوال اٹھایا کہ فلسطینی مسئلے میں ایسا کیا کمی ہے کہ فتنہ پرور اس کے لیے ویسے متحرک نہیں ہوتے جیسے وہ داخلی جھگڑوں کے لیے ہوتے ہیں؟ فلسطینی عوام سنی مسلمان ہیں، اور ان پر ہونے والا ظلم عالمی سطح پر تسلیم شدہ ہے—تو آپ ان کی مدد کیوں نہیں کرتے؟ جبکہ اسرائیلی اسلام اور مسلمانوں کے واضح دشمن ہیں۔
انہوں نے وضاحت کی کہ اسرائیلی اسلام، رسول اکرمﷺ، صحابہ کرام، اور تمام مسلمانوں کے خلاف ہیں۔ تو آپ ان کافروں کی مخالفت کیوں نہیں کرتے؟ فلسطینی مسئلے میں ایسا کیا کمی ہے—دینی، انسانی، عربی، یا اخلاقی لحاظ سے؟
فلسطین: جہاد کا مقدس ترین میدان اور اخلاص کا معیار
منافقین سے خطاب کرتے ہوئے سید عبدالملک نے کہا کہ حق اور باطل لوگوں کے مؤقف کو جانچنے کے معیار ہیں۔ جو لوگ جہاد کا دعویٰ کرتے ہیں—فلسطین سب سے بڑا اور مقدس ترین جہادی میدان ہے۔ یا کیا آپ جہاد صرف اُن سمتوں میں دیکھتے ہیں جو امریکیوں اور اسرائیلیوں نے فرقہ وارانہ فتنہ کے لیے تیار کی ہیں؟
انہوں نے زور دیا کہ فلسطینی مسئلہ سب سے نمایاں انسانی اور عرب قومی مسئلہ ہے—پھر یہ بلاجواز غداری کیوں؟ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ یہ ہمارے عرب و اسلامی معاشرے کا ایک اہم امتحان ہے۔ تاریخ میں ہمیشہ واقعات سب سے بڑا امتحان رہے ہیں، جو حق اور باطل کو نمایاں کرتے ہیں۔
انہوں نے افسوس سے سوال کیا کہ اسلامی دھارا—اس کی جماعتیں، پارٹیاں، تنظیمیں، ادارے—فلسطینی عوام کی حمایت میں کہاں ہیں؟ کیا اس امت کے لوگ اس وقت کا انتظار کر رہے ہیں جب غزہ کے تمام بچے مر جائیں گے یا دشمن انہیں مکمل طور پر بے دخل کر دے گا؟
انہوں نے کہا کہ اگر ایمان کے عنوانات مظلوم، کچلے ہوئے، اور ظالموں و مجرموں کے ہاتھوں ستائے ہوئے لوگوں کے لیے سچی رحمت سے خالی ہوں—تو پھر رحمت کہاں ہے؟ انہوں نے تنقیدی انداز میں سوال کیا کہ صہیونی یہودیوں کے تکبر، ظلم، اور جرائم کے مقابلے میں ایمان کی عزت کہاں ہے؟
انہوں نے نشاندہی کی کہ الازہر نے اسرائیلی جرائم کے خلاف صرف ہلکے الفاظ میں گلہ کرنے والا بیان بھی واپس لے لیا! انہوں نے زور دیا کہ جو کچھ فلسطینی عوام پر بیت رہا ہے وہ ایک آزمائش ہے—اگر وہ لوگ جو اللہ سے اخلاص کا دعویٰ کرتے ہیں عمل نہیں کرتے، تو پھر ایسا کون سا امتحان ہوگا جو امت کی حقیقت کو عیاں کرے؟
امت کی حالت غیر فطری ہے
جناب سید نے افسوس کا اظہار کیا کہ امت کی موجودہ حالت غیر فطری ہے، حتیٰ کہ انسانی بنیادوں پر بھی۔ اگر کوئی اور قوم— حتىٰ غیر مسلم—کسی بیرونی دشمن کے اتنے ظلم کا شکار ہوتی، تو وہ کبھی اسے برداشت نہ کرتی۔
انہوں نے وضاحت کی اور کہا کہ امت کی حقیقت میں خوفناک بگاڑ ہے—نہ ایمان کی صحیح پرورش ہے، نہ عزت، نہ ذمہ داری، نہ حالات کی سمجھ۔ ورنہ، اپنی وسیع دولت، تعداد، اور جغرافیہ کے باوجود امت اتنی ساکت نہ ہوتی۔
انہوں نے واضح کیا کہ امت کی حالت اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کے سرکاری قائدین غلامی، ذلت، اور سپردگی کی پرورش کرتے ہیں۔” وہ "اسرائیلی دشمن کا مقابلہ کرنے کی تحریک کو ختم کرنے کے لیے کام کرتے ہیں—یہ ایک افسوسناک حالت ہے۔
انہوں نے زور دیا کہ اسرائیلی دشمن جو کچھ کر رہا ہے، امریکہ کے ساتھ شراکت میں، وہ محض غلط فہمیاں یا محدود تنازعات سے پیدا ہونے والے واقعات نہیں ہیں۔
عرب و مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اے عربو، اے مسلمانو! اپنے دشمن کو پہچانو—یہودی، اپنے مجرمانہ صہیونی ایجنڈے کے ساتھ، اور ان کے امریکی، برطانوی، اور اسرائیلی ہتھیاروں کے ساتھ۔ دشمن دن رات اپنے اہداف کھلے عام ظاہر کرتا ہے: ‘نئے مشرق وسطیٰ’ کی تشکیل۔” انہوں نے خبردار کیا کہ "آپ کے دشمن کا ‘نیا مشرق وسطیٰ’ آپ کی تباہی، غلامی، اور مٹاؤ کا منصوبہ ہے—آپ کو اسرائیلی و امریکی جوتے تلے لانے کی تیاری ہے۔
انہوں نے زور دیا کہ امت کو اپنی ذہنی اور روحانی اندھی پن کا علاج کرنا ہو گا—کیونکہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں، بلکہ سینوں کے اندر دل اندھے ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے تلقین کی اور کہا کہ امت کو بیدار ہونا چاہیے۔ ہمیں عمل کرنا ہو گا، دوسروں کا انتظار نہیں کرنا چاہیے۔ غزہ کے مجاہدین کی ثابت قدمی کو دیکھو!
غزہ میں مجاہدین کی بہادری
قائد نے غزہ میں مجاہدین کی تعریف کی اور کہا کہ ہمارے غزہ میں مجاہد بھائی 22 ماہ سے بے مثال ہمت، استقامت، اور محدود وسائل کے ساتھ لڑ رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ غزہ کے مجاہدین غیر معمولی دلیری سے ٹینکوں کا مقابلہ کرتے ہیں، بارودی مواد نصب کرتے ہیں، اور انہیں تباہ کرتے ہیں۔ ان کی قربانی پوری امت کے لیے ایک سبق ہے—مگر انہیں مدد دینے کے بجائے دہشت گرد کہا جاتا ہے اور میڈیا میں بدنام کیا جاتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ عرب میڈیا غزہ کے مجاہدین کو بدنام کرنے اور مسخ کرنے سے باز نہیں آتا۔ تاہم، اسرائیلی دشمن، چاہے کچھ بھی کر لے، فنا کے راستے پر ہے—وہ صرف امت کی غداری سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ امت کی غداری اسے بھاری قیمت چکانے پر مجبور کرے گی، لیکن بالآخر، اس وجود کا انجام یقینی ہے—اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ الٰہی وعدہ پورا ہو گا، اور انجام اُن ثابت قدم مؤمنوں کے حق میں ہو گا جو اپنی ذمہ داریاں نبھاتے ہیں۔
رواں ہفتے کی کارروائیوں کی تفصیل
قائد نے اس ہفتے کی کارروائیوں پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ القصام بریگیڈ نے 14 بہادری کی کارروائیاں انجام دیں، جن کے ساتھ سرایا القدس اور دیگر تنظیمیں بھی تھیں—ان کی ثابت قدمی بے مثال ہے۔ انہوں نے تصدیق کی کہ دشمن، تقریباً چار فوجی ڈویژن تعینات کرنے کے باوجود، غزہ میں داخل ہونے میں ناکام رہا۔
انہوں نے اس بات کو اجاگر کیا کہ دشمن اپنی طویل اور ہمہ گیر تباہی پر واضح مایوسی کا شکار ہے—وہ مجاہدین یا ان کے حمایتیوں کو سرنگوں کرنے میں ناکام رہا۔
662 دنوں سے، غزہ کے مجاہدین دشمن کا شمال، مرکز اور جنوب میں مؤثر انداز میں سامنا کر رہے ہیں۔
شہداء حنینی اور فؤاد شُکر کو خراج عقیدت
سید عبدالملک نے "بہادر مجاہد قائدین اسماعیل حنینی اور فؤاد شکر (اللہ ان پر رحم فرمائے) کی شہادت کی برسی” کو یاد کرتے ہوئے فلسطین و لبنان کے مجاہدین کے کردار کو سراہا۔
انہوں نے زور دیا کہ فلسطین و لبنان کے مجاہدین اسرائیلی دشمن کا مقابلہ کرنے میں سب سے بڑا کردار ادا کرتے ہیں، اور پوری اسلامی امت—بالخصوص عرب ریاستوں—کے لیے ڈھال کا کردار ادا کرتے ہیں۔ انہوں نے اعلان کیا کہ اگر ان کی قربانیاں نہ ہوتیں تو مصر، اردن، شام جیسے عرب ممالک کا حال بھی اسرائیلی تسلط میں ہوتا، اور عراق ان کے بعد ہوتا۔
انہوں نے کہا کہ فلسطین و لبنان میں سچا، ثابت قدم جہاد اسلامی امت کی امید ہے۔
قائد کا یہ آخری خطاب صہیونی دشمن کی مجرمانہ حقیقت کو بے نقاب کرنے، عالمی غفلت کی مذمت، اور محض بیانات سے نکل کر عملی مزاحمت کی کھلی دعوت تھا—تاکہ غزہ، اس کے بچوں، اور ہماری امت کی عزت کی حمایت کی جا سکے۔