غزہ(مشرق نامہ) – المسیرة ٹی وی کی نمائندہ دعاء روقہ نے غزہ پر تازہ اسرائیلی جارحیت کو میدان جنگ کی صورتحال اور انسانی و صحت کے بحران میں خطرناک شدت قرار دیا ہے۔ انہوں نے اطلاع دی ہے کہ شہریوں پر فائرنگ اور مختلف علاقوں میں فضائی حملوں میں اضافہ ہو گیا ہے، جن میں امداد کے طلبگار افراد کو بھی نشانہ بنایا گیا۔
دعاء روقہ نے المسیرة کو دیے گئے خصوصی بیان میں بتایا کہ صہیونی افواج نے شمال مغربی غزہ شہر میں زکیم محاذ اور وسطی غزہ میں نتساریم محاذ کے قریب امداد کے متلاشی فلسطینی شہریوں پر براہ راست فائرنگ کی۔
انہوں نے مزید کہا کہ خان یونس میں اسرائیلی فضائی حملوں میں تیزی آئی ہے، جن کا نشانہ بے گھر افراد کے کیمپوں اور ان اسکولوں کو بنایا گیا جہاں متاثرہ شہری پناہ لیے ہوئے تھے۔ ان حملوں کے نتیجے میں جانی نقصان کی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں۔
دعاء روقہ نے تصدیق کی کہ قابض اسرائیلی افواج نے فلسطینی ریڈ کریسنٹ سوسائٹی کے زیر انتظام چلنے والے الامال اسپتال کو بھی نشانہ بنایا، جس میں اسپتال کا ایک انتظامی ملازم شہید ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ پہلا موقع نہیں جب بین الاقوامی و انسانی اداروں کو نشانہ بنایا گیا ہو۔
انہوں نے اسرائیل کی جانب سے اعلان کردہ نام نہاد "یکطرفہ انسانی جنگ بندی” کو ایک جھوٹا بیانیہ قرار دیا جو زمینی حقیقت سے قطعی طور پر میل نہیں کھاتا۔ ان کے مطابق غزہ میں امداد کی فراہمی انتہائی محدود ہے جبکہ صہیونی افواج اپنے زیر تحفظ گروہوں کو انسانی امداد لوٹنے کی اجازت دے رہی ہیں تاکہ وہ مستحقین تک نہ پہنچ سکے۔
دعاء روقہ نے صحت کے شعبے کی شدید زبوں حالی کی نشاندہی کی، اور کہا کہ طبی سازوسامان، اینستھیزیا اور بنیادی ادویات کی قلت نے طبی عملے کو مفلوج کر دیا ہے، جو زخمیوں کی جانیں بچانے سے قاصر ہیں۔
انہوں نے مشرقی غزہ شہر، خاص طور پر الشجاعیہ، الزیتون اور التفاح محلوں میں جاری منظم تباہی پر روشنی ڈالی، اور کہا کہ ان علاقوں میں مکانات اور رہائشی بلاکس کی منہدمی اس قدر شدید ہے کہ شجاعیہ مکمل صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا ہے۔ واپس لوٹنے والے رہائشیوں کو صرف کھنڈرات ملے۔
انہوں نے مزید کہا کہ رفح اور شمالی غزہ میں رہائشی عمارتوں اور ٹاورز کی تباہی بھی بدستور جاری ہے، اور مجموعی انسانی صورتحال دن بہ دن ابتر ہوتی جا رہی ہے۔
اکتوبر 2023 سے شروع ہونے والی اسرائیلی جنگ کے بعد سے غزہ میں انسانی بحران بدترین سطح پر پہنچ چکا ہے۔ شدید بمباری اور محاصرے کے باعث پہلے سے نازک صحت کا نظام تقریباً تباہ ہو چکا ہے۔ اسپتالوں کو بار بار نشانہ بنایا گیا ہے، امدادی قافلوں کو روکا گیا ہے، اور بے گھر شہریوں کو مسلسل خطرات کا سامنا ہے۔
صہیونی قابض افواج نے شمالی اور جنوبی غزہ دونوں میں حملے تیز کر دیے ہیں، اور وہ ان مقامات پر بھی حملے کر رہی ہیں جہاں شہری پناہ لیے ہوئے ہیں — جیسے کہ اسکولز اور کیمپ — اور ان حملوں کو "جنگجوؤں کو نشانہ بنانے” کا جواز دیا جا رہا ہے۔ بین الاقوامی ادارے قحط کے خدشے سے خبردار کر رہے ہیں کیونکہ خوراک اور طبی امداد نہ صرف نایاب ہو چکی ہے بلکہ راستے میں ضبط بھی کی جا رہی ہے۔
عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی تنقید کے باوجود اسرائیل کبھی کبھار "انسانی وقفوں” یا راہداریوں کا اعلان کرتا ہے، مگر زمینی حقائق ان کی عدم مؤثریت یا عدم تعمیل کی نشاندہی کرتے ہیں۔ امداد کے متلاشی یا جنگ زدہ علاقوں سے فرار ہونے والے شہریوں کو اکثر گولیوں یا نئے فضائی حملوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔