اوٹاوا/یروشلم (مشرق نامہ) –
کینیڈا نے اعلان کیا ہے کہ وہ ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس کے دوران فلسطینی ریاست کو باضابطہ طور پر تسلیم کرے گا۔ وزیر اعظم مارک کارنی نے بدھ کے روز اس فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ غزہ میں قحط کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر فلسطینی ریاست کا قیام "ہماری آنکھوں کے سامنے معدوم ہوتا جا رہا ہے”۔
کینیڈین فیصلے سے قبل فرانس نے گزشتہ ہفتے فلسطین کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا تھا، جب کہ برطانیہ نے کہا تھا کہ اگر ستمبر تک غزہ میں جنگ ختم نہ ہوئی تو وہ بھی فلسطینی ریاست کو تسلیم کرے گا۔
مارک کارنی نے صحافیوں کو بتایا کہ
کینیڈا اس بات کی مذمت کرتا ہے کہ اسرائیلی حکومت نے غزہ میں ایک انسانی المیے کو جنم لینے دیا ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ یہ فیصلہ جزوی طور پر فلسطینی اتھارٹی کی ان یقین دہانیوں پر مبنی ہے کہ وہ اپنی حکمرانی کو بہتر بنانے کے لیے اصلاحات کر رہی ہے اور 2026 میں عام انتخابات کرانے پر آمادہ ہے جن میں حماس کو کوئی کردار نہیں دیا جائے گا۔
کینیڈا، فرانس اور برطانیہ جیسے اسرائیل کے قریبی اتحادیوں کے ان اعلانات کو بین الاقوامی برہمی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، خاص طور پر اسرائیل کی جانب سے غزہ میں خوراک اور امداد کی رسائی میں رکاوٹیں ڈالنے پر۔ ایک عالمی قحط نگرانی ادارے نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں قحط کے بدترین خدشات حقیقت کا روپ دھار رہے ہیں۔
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق بدھ کے روز قحط سے مزید 7 افراد جاں بحق ہو گئے، جن میں ایک دو سالہ بچی بھی شامل ہے جو دماغی مرض میں مبتلا تھی۔ حماس کے زیرانتظام غزہ میڈیا آفس نے بتایا کہ بدھ کے روز صرف تین گھنٹوں کے دوران 50 سے زائد فلسطینی اس وقت شہید کیے گئے جب وہ شمالی غزہ میں اقوام متحدہ کی امدادی گاڑیوں سے خوراک حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
اسرائیل اور امریکہ کا ردعمل
اسرائیل اور امریکہ دونوں نے کینیڈا کے فیصلے کو مسترد کر دیا ہے۔
اسرائیلی وزارت خارجہ نے بیان جاری کیا کہ اس وقت کینیڈا کی پالیسی میں تبدیلی حماس کو انعام دینے کے مترادف ہے اور غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کی کوششوں کو نقصان پہنچاتی ہے۔
وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے بھی فرانسیسی اور برطانوی بیانات کے بعد اسی قسم کے خیالات کا اظہار کیا۔ ایک وائٹ ہاؤس اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کو "حماس کو انعام” دینے کے مترادف قرار دیتے ہیں۔
امریکی خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف جمعرات کو اسرائیل روانہ ہو رہے ہیں تاکہ غزہ کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا جا سکے۔ ٹرمپ نے اس ہفتے کہا کہ وہ غزہ میں مزید لوگوں کو خوراک فراہم کرنے کے لیے مراکز قائم کیے جانے کی توقع رکھتے ہیں۔
فلسطینی ریاست کی موجودہ حیثیت
واضح رہے کہ فلسطینی ریاست 2012 سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں غیررکن مبصر ریاست کے طور پر تسلیم شدہ ہے، اور اسے 193 میں سے تین چوتھائی رکن ممالک تسلیم کر چکے ہیں۔
سابق امریکی انٹیلی جنس افسر جوناتھن پینیکوف نے کہا کہ فلسطین کو تسلیم کرنے کا مقصد اسرائیل پر دو ریاستی حل کی طرف واپسی کے لیے دباؤ ڈالنا ہے۔ تاہم ان کے مطابق کینیڈا کا اعلان "زیادہ سے زیادہ علامتی اہمیت رکھتا ہے” اور اس سے اسرائیل کے ساتھ طویل شراکت داری کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون، جنہوں نے کینیڈین اعلان سے قبل کارنی سے بات کی، کا کہنا تھا کہ فلسطین کو تسلیم کرنا "خطے میں امن کی امید کو دوبارہ زندہ کرے گا”۔
اسرائیلی دھمکیاں اور داخلی دباؤ
اسرائیلی سکیورٹی کابینہ کے رکن زیئیو ایلکن نے بدھ کو کہا کہ اسرائیل غزہ کے کچھ علاقوں کو ضم کرنے کی دھمکی دے سکتا ہے تاکہ حماس پر دباؤ بڑھایا جائے، جو فلسطینی ریاست کے امکانات کو مزید کمزور کرے گا۔
درمیانی مدت کی جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کی کوششیں گزشتہ ہفتے تعطل کا شکار ہو چکی ہیں۔
غزہ کے رہائشی سعید الاخرس نے کہا کہ بڑی عالمی طاقتوں کی جانب سے فلسطین کو تسلیم کرنا مغرب کے مؤقف میں "حقیقی تبدیلی” کی عکاسی کرتا ہے۔
بس بہت ہو گیا! فلسطینی گزشتہ 70 برس سے قتل، تباہی اور قبضے کا سامنا کر رہے ہیں اور دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے، انہوں نے کہا۔
دوسری جانب اسرائیلی یرغمالیوں کے اہل خانہ نے مطالبہ کیا ہے کہ جب تک ان کے عزیز رہا نہیں ہوتے، فلسطینی ریاست کو تسلیم نہ کیا جائے۔
ان کے بقول٬ یہ تسلیم کرنا امن کی طرف قدم نہیں بلکہ بین الاقوامی قانون کی سنگین خلاف ورزی اور ان جنگی جرائم کی توثیق ہے جو اب بھی جاری ہیں۔
نیتن یاہو نے رواں ماہ کہا تھا کہ وہ فلسطینیوں کے ساتھ امن چاہتے ہیں، تاہم کسی بھی آزاد ریاست کو ممکنہ خطرہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ سلامتی پر مکمل اختیار اسرائیل کے پاس ہی رہنا چاہیے۔
نیتن یاہو کی کابینہ میں دائیں بازو کے شدت پسند ارکان شامل ہیں جو تمام فلسطینی زمین کو اسرائیل میں ضم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ وزیر خزانہ بیزلیل سموٹریچ نے منگل کو کہا کہ غزہ میں یہودی بستیاں دوبارہ آباد کرنا اب "پہلے سے زیادہ قریب ہے”، اور غزہ کو "سرزمینِ اسرائیل کا ناقابلِ تقسیم حصہ” قرار دیا۔
خوراک کی شدید قلت اور اقوام متحدہ کی ناکافی رسائی
دیئر البلح سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے صالح الغرابلی نے بتایا کہ ان کی 2 سالہ بیٹی، جو دماغی مرض میں مبتلا تھی، رات کے وقت بھوک سے جاں بحق ہو گئی۔
ڈاکٹروں نے بتایا کہ بچی کو مخصوص قسم کا دودھ پلانا ضروری ہے، لیکن دودھ میسر نہیں تھا۔ وہ بھوک سے مر گئی، اور ہم کچھ نہ کر سکے، انہوں نے کہا۔
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق جنگ کے آغاز سے اب تک بھوک اور غذائی قلت سے جاں بحق افراد کی تعداد 154 ہو چکی ہے، جن میں کم از کم 89 بچے شامل ہیں، زیادہ تر ہلاکتیں حالیہ ہفتوں میں ہوئیں۔
اسرائیل نے اتوار کو اعلان کیا تھا کہ وہ غزہ کے بعض علاقوں میں روزانہ 10 گھنٹے کے لیے عسکری کارروائیاں روک دے گا تاکہ امدادی قافلے خوراک اور ادویات فراہم کر سکیں۔ اقوام متحدہ نے بتایا کہ ابتدائی دو دنوں میں کچھ مزید خوراک پہنچائی جا سکی، لیکن مقدار اب بھی "انتہائی ناکافی” ہے۔
یاد رہے کہ یہ جنگ 7 اکتوبر 2023 کو شروع ہوئی تھی جب حماس نے جنوبی اسرائیل میں حملے کیے تھے، جن میں 1,200 افراد ہلاک اور 251 افراد کو یرغمال بنایا گیا تھا۔ اس کے بعد اسرائیل کے حملوں میں غزہ میں 60,000 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جب کہ زیادہ تر علاقہ تباہی کا شکار ہو چکا ہے۔