یمن (مشرق نامہ) – بحیرہ احمر میں اپنی اب تک کی سب سے جری کارروائی میں، یمنی مسلح افواج نے صیہونی ریاست کے خلاف بحری ناکہ بندی کے چوتھے مرحلے کے آغاز کا اعلان کر دیا ہے۔
یہ نیا مرحلہ اس تدریجی اور مستقل عسکری تصاعد کی انتہا ہے جو غزہ پر صیہونی جارحیت کے ردعمل میں شروع ہوا تھا۔ اس مرحلے کی خاص بات یہ ہے کہ اب صرف ان جہازوں کو نشانہ نہیں بنایا جائے گا جو براہ راست اسرائیلی بندرگاہوں کی جانب روانہ ہوں، بلکہ ان تمام کمپنیوں پر جامع پابندیاں عائد کی جائیں گی جو ان بندرگاہوں سے تجارتی لین دین جاری رکھے ہوئے ہیں—چاہے ان کی قومیت کچھ بھی ہو اور جہاز کہیں بھی جا رہا ہو۔
چوتھے مرحلے میں دنیا کی بڑی بحری تجارتی کمپنیوں—جیسے Maersk، CME، Hapag-Lloyd اور Evergreen—کے جہازوں کی نگرانی اور نشانہ بنانا شامل ہے۔ اب خطرہ صرف ان جہازوں تک محدود نہیں رہا جو اسرائیلی بندرگاہوں کی طرف جا رہے ہوں، بلکہ ہر وہ جہاز خطرے کی زد میں ہے جس کی ملکیت کسی ایسی کمپنی کے پاس ہو جو اسرائیلی تجارتی سرگرمیوں میں شامل ہو۔
یمنی افواج نے پہلے ہی مشرقی بحیرہ روم کی بندرگاہوں اور اسرائیلی ہاربرز کے درمیان کام کرنے والے جہازوں کی نگرانی شروع کر دی ہے، بشمول ان آئل ٹینکروں کے جو روزانہ صیہونی ریاست کو ایندھن فراہم کرتے ہیں۔
اگرچہ بندرگاہ "اُم الرشراش” (Eilat) کئی مہینوں سے بند ہے، تاہم اس تازہ ترین پیش رفت کا مقصد ناکہ بندی کو "حیفا” اور "اشدود” جیسے دیگر اہم بندرگاہوں تک وسعت دینا ہے—جو بحیرہ روم کی گہرائیوں میں ایک اسٹریٹجک تبدیلی کا اشارہ ہے۔ صنعاء نے ان اہداف کی سنجیدگی کو ان جہازوں کی تباہی کی ویڈیو فوٹیج جاری کر کے اجاگر کیا ہے، جو ایلات کی جانب روانہ تھے، تاکہ اپنے بیانات کی سچائی کو ثابت کیا جا سکے۔
غیر روایتی چیلنج اور روک تھام کی ناکامی
صیہونی عسکری ادارہ اب ایک ایسے "غیر روایتی دشمن” سے نمٹنے پر مجبور ہے جو نہ تو روایتی انداز میں تعینات ہوتا ہے اور نہ ہی روایتی اہداف کو نشانہ بناتا ہے۔ یمنی فوجی کارروائیوں کی غیر مرکزیت، جغرافیائی برتری اور لچکدار نقل و حرکت نے فضائی حملوں کو بے اثر کر دیا ہے، اور اسرائیلی جوابی کارروائیاں محض علامتی سزا بن کر رہ گئی ہیں، جن میں کوئی مؤثر مزاحمتی اثر باقی نہیں رہا۔
صیہونی تجزیہ کار یونی بن مناحم نے کہا کہ یمن میں مستقل عسکری اڈوں یا واضح حساس تنصیبات کی عدم موجودگی، اور ساتھ ہی صنعاء کے سکیورٹی اداروں کی مؤثر کارکردگی، اسرائیلی جوابی حملوں کو بے اثر بنا چکی ہے—جس کے نتیجے میں اسرائیل کے اندرونی نظام میں خلل تو پیدا ہوتا ہے مگر عسکری فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔
اسی طرح امریکہ کی جانب سے حالیہ مہینوں میں یمنی اہداف پر کیے گئے پیشگی حملے بھی صنعاء کو نہ روک سکے اور نہ ہی اس کی بحری مہم کو روکنے میں کامیاب ہوئے۔ امریکی حملوں کی پہلی لہر کا کوئی اسٹریٹجک اثر نہیں پڑا۔
زمینی سطح پر قانونی حیثیت اور خطے کی سیاسی تبدیلی
ایسا اس وقت ہو رہا ہے جب یمن، واشنگٹن اور تل ابیب کے درمیان عسکری طاقت کا نمایاں فرق موجود ہے۔ اس کے باوجود یمنی افواج نے مستقل عسکری سرگرمیوں کا تسلسل برقرار رکھا ہے، اور وقت کے ساتھ ساتھ شدت میں اضافہ کیا ہے۔ یہ صورتِ حال اس بات کی علامت ہے کہ اب خطے میں غیر روایتی قوتوں کے خلاف امریکی مزاحمتی حکمتِ عملی مؤثر نہیں رہی۔
فوجی کارروائیوں کے ساتھ ساتھ، ایک گہری سیاسی تبدیلی بھی جنم لے رہی ہے۔ صنعاء کی حکومت، جسے کبھی غیر قانونی یا باغی قرار دیا جاتا تھا، اب میدان میں عملی کارکردگی کے ذریعے اپنی حیثیت منوا رہی ہے۔ اس کی طاقت کا اثر نہ صرف یمن کے اندر بلکہ پورے خطے تک پھیل چکا ہے۔ صنعاء نے ایک مؤثر بحری مزاحمتی توازن قائم کیا ہے، اور ساتھ ہی اپنا سیاسی بیانیہ بھی منظم انداز میں پیش کیا ہے، جس کے باعث اسے خطے میں سیاسی اور میڈیا کی سطح پر بڑھتی ہوئی اہمیت حاصل ہو رہی ہے۔
یہ تمام تبدیلیاں خطے میں ایک نئی سیاسی حقیقت کی نشاندہی کرتی ہیں—ایسی حقیقت جو نہ مذاکرات سے تشکیل پائی ہے، نہ غیر ملکی سرپرستی سے، بلکہ داخلی طاقت، مسلسل پیغام رسانی، اور میدان میں کامیاب کارکردگی کے تسلسل سے وجود میں آئی ہے۔
مسلسل تصادم اور بحیرہ روم میں غیر یقینی مستقبل
غزہ پر دباؤ کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ، یمنی مسلح افواج بھی صیہونی ریاست کے خلاف اپنی کارروائیاں بلا رکاوٹ جاری رکھے ہوئے ہیں—نہ تو کوئی سفارتی کوشش انہیں روک سکی ہے، نہ ہی کوئی جوابی حملہ۔
یہ تازہ عسکری مرحلہ صرف یمنی عزم کی علامت نہیں بلکہ اسٹریٹجک صلاحیت کا بھی مظہر ہے، جس کے ذریعے یمن بحری علاقوں میں تصادم کے دائرے کو وسعت دے رہا ہے، اور نئے جنگی قواعد لاگو کر رہا ہے—جبکہ اس کے مقابلے میں مؤثر عالمی ردعمل کا وجود ہی نہیں۔
اگر یہی رفتار جاری رہی، تو مشرقی بحیرہ روم میں بحری طاقت کا توازن ایک نئے، اور کہیں زیادہ غیر مستحکم مرحلے میں داخل ہو سکتا ہے—ایسا مرحلہ جو محض زبانی بیانات یا فضائی حملوں سے قابو میں نہیں لایا جا سکے گا۔
یمنی مسلح افواج نے صیہونی ریاست کے خلاف بحری ناکہ بندی کے نئے مرحلے کا آغاز کر دیا ہے، جس کے تحت اب ہر وہ جہاز نشانے پر ہو گا جو ایسی کمپنی کی ملکیت ہو جو مقبوضہ فلسطین کی بندرگاہوں سے تجارتی لین دین کرتی ہو—چاہے کمپنی کا تعلق کسی بھی ملک سے ہو اور جہاز کا ہدف کوئی بھی ہو۔
ایک بیان میں یمنی مسلح افواج کے ترجمان بریگیڈیئر جنرل یحییٰ سریع نے کہا کہ یمنی مسلح افواج نے دشمن کے خلاف اپنی عسکری امدادی کارروائیوں کو مزید بڑھانے اور بحری ناکہ بندی کے چوتھے مرحلے کا نفاذ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس مرحلے میں ان تمام کمپنیوں کے جہازوں کو نشانہ بنایا جائے گا جو اسرائیلی بندرگاہوں سے تجارت کرتی ہیں—چاہے وہ کسی بھی قومیت کی ہوں، اور جہاں بھی ہماری قوت پہنچ سکتی ہو۔
یہ تمام اقدامات یمنی اسٹریٹجی کا حصہ ہیں جس کے تحت وہ صیہونی ریاست کی جنگی جرائم اور غزہ پر انسانی ناکہ بندی کے ردعمل میں فضائی اور بحری پابندیاں نافذ کر رہا ہے۔ یمنی فورسز مسلسل مقبوضہ فلسطین کے حساس مقامات کو نشانہ بنا کر مادی اور نفسیاتی دباؤ پیدا کر رہی ہیں، تاکہ غزہ پر جارحیت رکوائی جا سکے اور انسانی امداد کی راہیں کھولی جا سکیں۔