مانیٹرنگ ڈیسک (مشرق نامہ)–برطانوی اخبار "دی سن” نے بدھ کے روز ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ مسلسل محاصرے اور عسکری و اقتصادی جارحیت کے باوجود، یمن نے جدید میزائل اور ڈرون نظام تیار کر لیے ہیں جنہوں نے خطے میں طاقت کے توازن کو نمایاں طور پر تبدیل کر دیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یمن کی ابھرتی ہوئی عسکری صلاحیتیں واشنگٹن، اسرائیلی قابض حکومت اور یورپی ممالک کے لیے شدید تشویش کا باعث بن گئی ہیں۔
یمنی مسلح افواج کی جانب سے غزہ کی حمایت میں بحیرہ احمر، بحیرہ عرب اور باب المندب کی تنگ گزرگاہ میں انجام دی جانے والی فوجی کارروائیوں نے اسرائیلی بندرگاہوں پر تجارتی سرگرمیوں کو شدید متاثر کیا ہے، بالخصوص اس وقت جب یمن نے ایک مؤثر بحری ناکہ بندی نافذ کی جس کے نتیجے میں ام الرشراش (ایلات) کی بندرگاہ مکمل طور پر بند ہو گئی۔
ناکام دباؤ، کامیاب مزاحمت
اخبار نے اس بات پر زور دیا کہ امریکہ، اسرائیلی حکومت اور یورپی یونین کی جانب سے یمنیوں کی مزاحمتی قوت کو توڑنے کی تمام کوششیں ناکام ہو چکی ہیں۔ فوجی حملوں، اقتصادی پابندیوں اور سیاسی مداخلت کے باوجود، یمن نے بحیرہ احمر میں نئے دفاعی اصول منوائے ہیں اور طاقتور فریقوں کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ یمن کی عسکری صلاحیتوں کے جواب میں صہیونی اور امریکی ردِعمل ہچکچاہٹ اور محدود دائرے میں رہا، جو اس بات کا عکاس ہے کہ یمنی فوجی طاقت کی ابھرتی ہوئی حیثیت نے خطے میں مغربی مفادات کو بے یقینی اور اضطراب سے دوچار کر دیا ہے۔
علاقائی قواعد میں بڑی تبدیلی
رپورٹ کے مطابق یمن اب خطے میں امریکہ کے منصوبوں کے لیے ایک سنجیدہ چیلنج بن چکا ہے۔ بحیرہ احمر کی صورتحال اب ایک واضح مثال ہے کہ کس طرح یمن نے شدید ناکہ بندی، مسلسل جنگ، اور بین الاقوامی دباؤ کے باوجود مزاحمتی قوت کا عملی مظاہرہ کیا ہے۔
2023 کے اواخر سے یمن غزہ سے جڑے علاقائی تنازع میں ایک مرکزی کردار کے طور پر ابھرا ہے، خاص طور پر بحیرہ احمر میں اپنی اسٹریٹجک کارروائیوں کے ذریعے۔ کئی سالہ جنگ اور ناکہ بندی کے دوران، یمنی مسلح افواج نے حیران کن طور پر جدید میزائل اور ڈرون ٹیکنالوجی تیار کی ہے، جن کی مدد سے اسرائیل سے منسلک بحری تجارتی راستوں پر مؤثر بحری ناکہ بندی نافذ کی گئی۔
عالمی بحری حکمت عملی کا چیلنج
دی سن نے واضح کیا کہ جس بحیرہ احمر پر کبھی مغربی بحری طاقت کی گرفت تھی، وہ اب ایک متنازع اور مزاحمتی میدان بن چکا ہے۔ یمن کی کارروائیوں نے اسرائیلی بندرگاہوں کی سرگرمی، خاص طور پر ایلات میں، مفلوج کر دی ہے اور عالمی بحری راستوں میں پیچیدگیاں پیدا کر دی ہیں۔
بین الاقوامی عسکری ردِعمل اور اقتصادی دباؤ کے باوجود، یمن نے مسلسل دباؤ برقرار رکھا ہے، جس نے عسکری و اسٹریٹجک سطح پر خطے میں نئے دفاعی اصولوں اور مزاحمتی توازن کو جنم دیا ہے۔
رپورٹ کے اختتام میں کہا گیا ہے کہ اس اسٹریٹجک تبدیلی نے دنیا بھر میں توجہ حاصل کی ہے، اور مغربی میڈیا اب تسلیم کر رہا ہے کہ یمن نہ صرف طاقتور دشمنوں کو چیلنج کر رہا ہے بلکہ دنیا کے اہم ترین بحری راستوں میں طاقت کے توازن کو بدلنے کی قابلِ ذکر صلاحیت رکھتا ہے۔