مقبوضہ فلسطين (مشرق نامہ) – فلسطینی بچوں کی بھوک اور اجتماعی اموات کی دل دہلا دینے والی تصاویر نے اسرائیلی فنکاروں، اہلکاروں اور امریکی یہودی رہنماؤں کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ اسرائیل کی جنگ کو "نسل کشی” قرار دیتے ہوئے شدید مذمت کریں۔
ایک غیر معمولی اخلاقی بغاوت کے تحت، اسرائیلی معاشرے کی ممتاز شخصیات — جن میں فنکار، سائنسدان، قانونی ماہرین اور سابق سیاسی رہنما شامل ہیں — نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسرائیل پر سخت ترین اقتصادی پابندیاں عائد کرے۔ یہ مطالبہ برطانوی اخبار دی گارڈین میں شائع ایک عوامی خط کے ذریعے سامنے آیا، جو اسرائیل میں غزہ کی جنگ کے گرد قائم سخت عوامی بیانیے میں ایک تاریخی شگاف کی نمائندگی کرتا ہے۔
خط پر دستخط کرنے والوں میں سابق اسپیکر کنسٹ آبراہم برگ، سابق اٹارنی جنرل مائیکل بن یائیر، اور معروف فلم ساز سیموئیل ماؤز شامل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل "غزہ کے عوام کو بھوکا مار رہا ہے” اور فلسطینیوں کی جبری نقل مکانی کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔
انہوں نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ اسرائیل پر سخت اقتصادی پابندیاں عائد کی جائیں جب تک وہ اپنی اس ظالمانہ مہم کو ختم نہ کرے اور مستقل جنگ بندی نافذ نہ کرے۔
ممنوعہ دائرے کا ٹوٹنا
یہ بیان نہ صرف اپنے سخت لہجے کے سبب غیر معمولی ہے، بلکہ اس لیے بھی اہم ہے کہ اس میں کھلے عام اسرائیل کے خلاف عالمی پابندیوں کی حمایت کی گئی ہے — ایک ایسا مؤقف جسے اسرائیل کے اندر قانونی طور پر دبانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
یہ اپیل اس وقت سامنے آئی ہے جب فلسطینی بچوں کی قحط سے متاثرہ حالت میں فوٹیجز اور اطلاعات سامنے آ رہی ہیں کہ اسرائیلی فوجیں امدادی مراکز پر کھانے کے منتظر بھوکے فلسطینیوں پر فائرنگ کر رہی ہیں۔ غزہ کی وزارت صحت کے مطابق نسل کشی کی اس 21 ماہہ جنگ میں شہداء کی تعداد 60,000 سے تجاوز کر چکی ہے۔
اسرائیلی انسانی حقوق تنظیموں کی اعترافی گواہی
اس اپیل کو مزید تقویت اس وقت ملی جب دو بڑی اسرائیلی این جی اوز — بتسلیم اور فزیشنز فار ہیومن رائٹس اسرائیل — نے پہلی بار کھلے عام اعتراف کیا کہ غزہ میں اسرائیلی فوجی کارروائیاں نسل کشی کی تعریف پر پوری اترتی ہیں۔ یہ بیان اسرائیلی اداروں کی طویل خاموشی میں ایک نمایاں تبدیلی ہے۔
امریکی یہودی قیادت کی مذمت
امریکہ میں سب سے بڑی یہودی مذہبی تنظیم ریفارم موومنٹ نے بھی اتوار کے روز ایک زوردار بیان میں غزہ میں قحط کا براہِ راست ذمہ دار اسرائیل کو ٹھہرایا۔
بیان میں کہا گیا کہ ہزاروں غزہ کے باشندوں کی مستقل بھوک سے کوئی بھی بے خبر نہیں رہ سکتا۔ بچوں کے لیے خوراک، پانی، دوا اور بجلی کی بندش ناقابلِ دفاع ہے۔
انہوں نے یہ دعویٰ بھی مسترد کیا کہ اس صورتحال کا ذمہ دار حماس ہے، اور واضح کیا کہ اسرائیلی ریاست خود اس انسانی بحران کی براہِ راست ذمہ دار ہے۔
"آئیے اس لمحے کے اخلاقی چیلنج کا سامنا ایمانداری سے کریں۔”
اسرائیلی بیانیے میں دراڑ
یہ داخلی مخالفت ایسے وقت میں ابھر رہی ہے جب عالمی سطح پر غزہ کی صورتحال پر غم و غصہ شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ بڑے پیمانے پر قحط، شہری ہلاکتوں، اور بنیادی ڈھانچے کے انہدام کی گرافک تصاویر نے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ دیا ہے۔
اس دوران، سابق اسرائیلی وزیر اعظم ایہود اولمرٹ نے بھی رفح میں اسرائیلی کارروائیوں کو "نسلی صفائی” سے تعبیر کرتے ہوئے حکومتی بیانیے پر مزید ضرب لگائی ہے۔
اسرائیلی ریاست کا دفاعی پروپیگنڈا
ان اندرونی مخالفتوں کے باوجود، اسرائیل کی حکومت بین الاقوامی سطح پر الزامات کو رد کرنے کے لیے میڈیا مہم تیز کر چکی ہے۔ سرکاری اہلکار فاقہ کشی کی حقیقت کو مشکوک بنانے، شہری ہلاکتوں کو کم تر دکھانے، اور بحران کا الزام حماس یا امدادی اداروں پر ڈالنے کی کوششیں کر رہے ہیں، تاکہ عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی مذمت سے بچا جا سکے۔
تاہم، درجنوں حکومتیں، اقوامِ متحدہ کی ایجنسیاں، اور بین الاقوامی امدادی تنظیمیں اسرائیل کو دانستہ قحط پھیلانے اور جبری نقل مکانی کا ذمہ دار ٹھہرا رہی ہیں۔
اس بڑھتی ہوئی اندرونی مخالفت کے ساتھ، یہ ممکن ہے کہ اسرائیل کے خلاف بین الاقوامی قانونی، سفارتی اور سیاسی سطح پر زیادہ سخت نتائج سامنے آئیں — جو غزہ میں جاری نسل کشی پر دنیا کے رویے میں ایک بنیادی تبدیلی کی نشاندہی ہو سکتی ہے۔