جولائی 2024 میں لیبر حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے چین اور برطانیہ کے درمیان سفارتی روابط میں تیزی آئی ہے، جس کا مظہر اعلیٰ سطحی ملاقاتوں کا سلسلہ اور دوطرفہ تعلقات پر نظرِ ثانی کا واضح عندیہ ہے۔
اکتوبر 2024 میں برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی کے بیجنگ کے دورے سے لے کر نومبر میں برازیل میں جی 20 اجلاس کے موقع پر وزیر اعظم کیئر سٹارمر اور چینی صدر شی جن پنگ کی ملاقات تک، دونوں ممالک محتاط انداز میں تعلقات کو ازسرِنو استوار کرنے کے امکانات کا جائزہ لے رہے ہیں۔
اسی تناظر میں، چین کے وزیر خارجہ وانگ یی کا مجوزہ دورۂ برطانیہ اہم پیش رفت ہے، جو سات برس بعد پہلی چین-برطانیہ اسٹریٹجک ڈائیلاگ کا موقع فراہم کرے گا۔ یہ دورہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب لیبر حکومت برطانیہ کی خارجہ پالیسی کا "تزویراتی جائزہ” لے رہی ہے، تاکہ روابط اور محتاط سفارتی حکمت عملی کے مابین توازن قائم رکھا جا سکے۔
لیبر حکومت کے تحت سفارتی پیش رفت
اکتوبر 2024 میں بیجنگ میں برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی اور چینی وزیر خارجہ وانگ یی کے درمیان ملاقات میں "باہمی مفاد پر مبنی تعاون” کے امکانات پر گفتگو ہوئی، جبکہ ان امور کا بھی اعتراف کیا گیا جن پر دونوں ممالک کے نقطہ نظر میں اختلاف پایا جاتا ہے۔
وانگ یی نے اس موقع پر چین-برطانیہ تعلقات کو "ایک نئے نقطہ آغاز” سے تعبیر کرتے ہوئے اسٹریٹجک روابط کو وسعت دینے اور دوطرفہ تعاون کے معطل میکانزم کی بحالی پر زور دیا۔
ایک ماہ بعد، لیبر حکومت کے تحت اب تک کا سب سے نمایاں سفارتی تبادلہ برازیل میں جی 20 اجلاس کے دوران دیکھنے میں آیا، جہاں چینی صدر شی جن پنگ اور برطانوی وزیر اعظم کیئر سٹارمر کی ملاقات ہوئی۔
یہ گزشتہ چھ برسوں میں کسی برطانوی وزیر اعظم اور چینی رہنما کے درمیان پہلی براہِ راست ملاقات تھی، جس میں دونوں ممالک نے مستحکم تعلقات کی خواہش کا اظہار کیا۔ صدر شی جن پنگ نے دوطرفہ روابط میں "نئے امکانات” کی امید ظاہر کی، جبکہ وزیر اعظم سٹارمر نے تعلقات کو "پائیدار، مستقل اور باوقار” بنانے پر زور دیا۔
2025 کے آغاز میں ایک اور مثبت پیش رفت اس وقت سامنے آئی جب برطانوی وزیر خزانہ ریچل ریوز نے چین کا دورہ کیا۔ اس دورے کا مقصد اقتصادی تعلقات کو فروغ دینا اور چین-برطانیہ اقتصادی و مالیاتی مکالمے کی بحالی تھا، جو گزشتہ چھ برسوں سے معطل تھا۔
چینی نائب وزیر اعظم ہی لی فینگ کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں سرمایہ کاری کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو کم کرنے اور قابل تجدید توانائی، حیاتیاتی سائنسز، اور مالیاتی خدمات جیسے شعبوں میں تعاون بڑھانے پر توجہ دی گئی۔
ریوز نے ان معاہدوں کو "عملی سفارتی تعاون” کی عمدہ مثال قرار دیا، اور اس امر کو اجاگر کیا کہ سیاسی اختلافات کے باوجود اقتصادی مفادات چین-برطانیہ تعلقات میں کلیدی محرک بنے ہوئے ہیں۔
اس دورے کے نتیجے میں برطانوی معیشت کے لیے اگلے پانچ برسوں میں 730 ملین ڈالر کے معاہدے طے پائے—یہ اس امر کا واضح ثبوت ہے کہ جغرافیائی و سیاسی چیلنجز کے باوجود اقتصادی تعاون کو دونوں ممالک کے لیے بدستور سودمند تصور کیا جا رہا ہے۔