جمعہ, اکتوبر 10, 2025
ہومبین الاقوامیجب روس نے خلا میں بڑا آئینہ نصب کر کے زمین کو...

جب روس نے خلا میں بڑا آئینہ نصب کر کے زمین کو روشن کرنے کا منصوبہ بنایا
ج

یہ منظر کسی جیمز بانڈ فلم کے ولن کے شیطانی منصوبے کی طرح معلوم ہوتا ہے، جہاں ولن دنیا میں اپنی طاقت کو ثابت کرنے کے لیے خلا میں ایک دیو قامت آئینہ نصب کرتا ہے تاکہ اس کی شعاعوں کو زمین پر کسی بھی ہدف کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کیا جا سکے۔

4 فروری 1993 کو روس کی خلائی ایجنسی روسکوسموس نے اسی نوعیت کے منصوبے پر کام شروع کیا، تاہم اس کا مقصد کچھ اور تھا۔ روسی پروگرام زنمیا (جو کہ روسی زبان میں "بینر” کے معنی رکھتا ہے) کسی گھناؤنی سازش کا حصہ نہیں تھا اور نہ ہی اس کے ذریعے دنیا کو بلیک میل کرنے کا کوئی ارادہ تھا۔

بی بی سی کے "ٹوماروز ورلڈ” کے میزبان کیٹ بیلنگھم نے زنمیا کے لانچ سے پہلے اپنے پروگرام میں وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ اس پروگرام کا بنیادی مقصد ‘سردی کے تاریک مہینوں میں سائبیریا کے آرکٹک شہروں کو روشن کرنا تھا۔ بنیادی طور پر یہ ایسا تھا جیسے روس کے قطبی علاقوں میں رات کے بعد سورج کو دوبارہ آن کرنے کی کوشش کی جائے۔’

اگرچہ آج بھی یہ تصور انوکھا لگتا ہے، لیکن زمین پر روشنی ڈالنے کے لیے خلا میں آئینے کا استعمال کرنے کا خیال حقیقت میں نیا نہیں۔ سنہ 1923 میں جرمنی کے راکٹ کے ماہر ہرمن اوبرٹھ نے اپنی کتاب "دی راکٹ ٹو پلینیٹری سپیس” میں اسی طرح کا خیال پیش کیا تھا۔ ان کی کتاب ایک پی ایچ ڈی کے مقالے پر مبنی تھی، جسے ہائیڈلبرگ یونیورسٹی نے انتہائی ناقابل عمل سمجھ کر مسترد کر دیا تھا، لیکن بعد میں اوبرٹھ نے اسے خود شائع کیا۔

اوبرٹھ نے اس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ راکٹ زمین کے مدار سے باہر جا سکتے ہیں۔ اس کتاب میں پیش کیے گئے خیالات میں خلائی سفر کے انسانی جسم پر اثرات، سیٹلائٹ کے مدار میں لانچ کرنے کے طریقے اور خلا میں ایک آئینہ لگانے کا تصور شامل تھا، جو سورج کی روشنی کو زمین کے کسی مقام پر منعکس کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا تھا۔

اوبرٹھ کا خیال تھا کہ خلا میں لگے اس آئینے کا استعمال آفات کو روکنے اور امدادی کاموں میں مدد فراہم کر سکتا ہے، جیسا کہ 1912 میں ٹائٹینک کو ڈوبنے سے بچانے یا اس حادثے میں بچ جانے والوں کی مدد کے لیے استعمال کیا جا سکتا تھا۔

اوبرٹھ کا مزید کہنا تھا کہ خلا میں نصب یہ آئینہ آئس برگ (برف کے تودوں) کو پگھلا کر جہاز رانی کے راستے کو صاف کرنے یا زمین کا موسم تبدیل کرنے میں بھی مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔

دوسری عالمی جنگ کے دوران بھی جرمن سائنسدانوں نے خلا میں آئینہ نصب کرنے کے منصوبے پر غور کیا تھا۔ نازی ہتھیاروں کے تحقیقاتی مرکز میں سائنسدانوں نے ایک ہتھیار بنانے کی کوشش کی تھی جسے "سونن گیوہر” یا "سن گن” کہا جاتا تھا۔ 1945 میں ٹائم میگزین میں شائع ہونے والی رپورٹس کے مطابق، پکڑے گئے جرمن سائنسدانوں نے امریکی فوج کے تفتیش کاروں کو بتایا کہ اس ہتھیار کو سورج کی روشنی کو شہروں میں آگ لگانے یا جھیلوں میں پانی اُبالنے کے لیے استعمال کیا جانا تھا۔

اتحادی قوتوں کے ٹیکنیکل انٹیلی جنس کے چیف، کرنل جان کیک نے اُس وقت صحافیوں کو بتایا تھا کہ جرمن سائنسدانوں کو یقین تھا کہ ان کا "سن گن” اگلے 50 سالوں میں قابل عمل ہو سکتا تھا۔

جرمن نژاد راکٹ انجینیئر ڈاکٹر کرافٹ ایہرک نے دوسری عالمی جنگ کے دوران جرمنی کی وی-2 راکٹ ٹیم کا حصہ ہونے کے بعد امریکہ میں کام کرنا شروع کیا تھا۔ ایہرک نے 1970 کی دہائی میں خلا میں آئینہ نصب کرنے کے خیال کو دوبارہ زندہ کیا۔

سنہ 1978 میں ایہرک نے ایک مقالہ لکھا، جس میں انھوں نے بتایا کہ زمین کے مدار میں چکر لگانے والے دیوہیکل آئینے سورج کی روشنی سے رات کو دن میں بدل سکتے ہیں، جس سے کسانوں کو 24 گھنٹے کھیتی باڑی کرنے میں مدد مل سکتی تھی۔ انھوں نے اسے "پاور سولیٹا” کا نام دیا۔

لیکن ایہرک کی یہ خواہش کبھی پوری نہ ہو سکی، کیونکہ وہ 1984 میں وفات پا گئے۔ تاہم، ان کی خلائی سفر کی آرزو 1997 میں اس وقت پوری ہوئی جب ان کی باقیات کو خلا میں لے جایا گیا، جہاں انھیں "سٹار ٹریک” کے خالق جین روڈن بیری اور ماہر نفسیات ٹموتھی لیری کے ساتھ مدار میں بھیجا گیا۔

ایہرک کے خلا میں آئینہ نصب کرنے کے خیالات پر امریکہ کے ناسا ادارے نے بھی 1980 کی دہائی میں کام کیا تھا، مگر "سولارس” نامی منصوبے کو کبھی فنڈنگ نہیں ملی۔ اس دوران روس میں خلا میں سولر آئینے نصب کرنے کا خیال جڑ پکڑ گیا۔

روسی سائنسدان ولادیمیر سیرومیاتنیکوف نے اس بات پر تحقیقات شروع کی کہ آیا سولر بادبانوں کو خلا میں استعمال کیا جا سکتا ہے تاکہ خلا میں جہازوں کو سورج کی توانائی سے چلایا جا سکے۔ سیرومیاتنیکوف نے انسانوں کو لے جانے والے پہلے روسی خلائی جہاز "ووستوک” پر بھی کام کیا تھا، جو یوری گگارین کو خلا میں لے گیا تھا۔

سیرومیاتنیکوف کا خیال تھا کہ اگر سولر بادبان کسی خلائی جہاز سے منسلک کیے جائیں تو وہ سورج کی توانائی کے ذرات کو جہاز کو خلا میں دھیرے دھیرے آگے بڑھانے میں استعمال کر سکتے ہیں، اور اس میں کسی ایندھن کی ضرورت نہیں ہوگی۔ تاہم، سوویت دور کے اختتام کے بعد ایسے منصوبوں کے لیے فنڈز حاصل کرنا مشکل ہو گیا، اور انھیں اپنے خیال میں تبدیلی لانی پڑی۔

سیرومیاتنیکوف نے فیصلہ کیا کہ ان سولر بادبانوں کو آئینوں کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے تاکہ قطبی علاقوں میں اضافی سورج کی روشنی فراہم کی جا سکے، اور اس کے ذریعے علاقے کی پیداوار میں اضافہ ہو سکے۔

آخرکار روس کے خلائی پروگرام نے اس منصوبے کی مالی معاونت شروع کی، اور "زنمیا” کی تیاری کا عمل شروع ہوا۔ زنمیا-1 اور زنمیا-2 کی تیاری کے بعد، روس نے ان آئینوں کا خلا میں کامیاب تجربہ کیا، جس میں زمین پر روشنی منعکس کرنے کی صلاحیت موجود تھی۔

زنمیا-2 کا منصوبہ ایک تکنیکی کامیابی کے طور پر دیکھا گیا، مگر اس کے کچھ اہم چیلنجز بھی سامنے آئے۔ ان چیلنجز میں زمین پر روشنی کی کمی اور آئینے کی پوزیشن کو برقرار رکھنے کی مشکلات شامل تھیں۔

زنمیا کے تجربات نے یہ ثابت کیا کہ خلا میں آئینے کا استعمال ممکن ہے، مگر ان کے عملی استعمال میں کئی مسائل بھی سامنے آئے۔

مقبول مضامین

مقبول مضامین