اسرائیل کے مظالم نے انسانیت، انصاف اور تمام اقوام کے حقِ خودارادی کے عالمی دفاع کو بیدار کر دیا ہے۔
طلال احمد ابو رکبہ
جو کچھ تقریباً دو برسوں سے غزہ کی پٹی میں رونما ہو رہا ہے، وہ محض ایک انسانی المیہ نہیں بلکہ ایک سیاسی جرم ہے جس کے گہرے تاریخی اور جغرافیائی و سیاسی اثرات ہیں۔
اس نے انسانی حقوق، امن اور سلامتی کے بارے میں بین الاقوامی بیانیے کی کمزوریوں کو بے نقاب کر دیا ہے، کیونکہ ایسی تمام باتوں نے نہ تو اسرائیل کے جاری قتل عام کو روکنے میں کوئی کردار ادا کیا ہے اور نہ ہی اس کی ان پالیسیوں کو جن کا مقصد فلسطینیوں کو جبراً غزہ سے بے دخل کرنا ہے — جو اب دنیا کے سب سے بڑے کھلے قبرستانوں میں سے ایک بن چکا ہے۔
تاہم یہ نسل کشی دنیا بھر میں بیدار ضمیروں کے لیے ایک پکار بن گئی ہے، جس نے انسانیت، انصاف اور تمام اقوام کے حقِ خودارادیت کے اجتماعی دفاع کو جنم دیا ہے۔
دنیا بھر میں لاکھوں آوازیں اسرائیل کے ان مظالم کے خلاف بلند ہوئیں جن میں مردوں، عورتوں اور بچوں کا قتل عام کیا گیا، اور ساتھ ہی غزہ کے بیشتر سول ڈھانچے کو تباہ کر دیا گیا۔ برطانیہ، فرانس اور کینیڈا سمیت کئی ممالک نے حال ہی میں ایک آزاد فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا، اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ پائیدار امن کے لیے ایک حقیقی سیاسی راستے کی ضرورت ہے۔
یہاں تک کہ وہ ممالک بھی جو طویل عرصے سے اسرائیل کے حامی رہے ہیں، اب غزہ کی نسل کشی کو نظرانداز نہیں کر سکتے۔
جو کچھ گزشتہ دو برسوں میں ہوا ہے، وہ جدید تاریخ کے انسانیت کے خلاف بدترین جرائم میں سے ایک ہے۔ عام شہریوں کو نشانہ بنایا گیا، انسانی امداد کو روکا گیا، اور پوری پوری بستیاں صفحۂ ہستی سے مٹا دی گئیں۔ خوراک کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا، اور ہزاروں بھوکے فلسطینیوں کو امدادی مراکز پر اسرائیلی افواج نے قتل کر دیا۔
اسرائیل نے کھلے عام بین الاقوامی انسانی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے، عالمی اصولوں اور معاہدوں کو پامال کیا ہے، جیسا کہ اقوامِ متحدہ اور دیگر انسانی حقوق کی تنظیموں کی بے شمار رپورٹس میں اجاگر کیا گیا ہے۔
فیصلہ کن موڑ
یہ وحشیانہ جارحیت صرف ایک انسانی سانحہ نہیں بلکہ بین الاقوامی تعلقات کی تاریخ میں ایک فیصلہ کن موڑ ہے، جس نے کئی ممالک کو اس تنازع پر اپنی پوزیشن پر نظرِثانی کرنے پر مجبور کیا ہے اور عالمی نظام میں موجود دوہرے معیارات کو عیاں کیا ہے۔
یہ صورتحال اہم سوالات کو جنم دیتی ہے: متاثرین کی یاد کو کس طرح محفوظ رکھا جائے؟ اور اسرائیل کے ان بھیانک جرائم کو کس طرح دستاویزی شکل میں محفوظ کیا جائے تاکہ وہ دوبارہ رونما نہ ہوں؟
غزہ میں نسل کشی کا جائزہ ایک حقیقت آشکار کرتا ہے: اس نے اسرائیلی فوج کے اس دعوے کو بے نقاب کر دیا ہے کہ وہ ’’دنیا کی سب سے اخلاقی فوج‘‘ ہے۔ اس نے حد سے زیادہ اور بلا جواز طاقت کا استعمال کیا؛ غزہ میں ہلاک ہونے والے 67 ہزار سے زائد افراد میں تقریباً نصف عورتیں اور بچے ہیں۔
اسرائیل کی خلاف ورزیاں اسپتالوں، صحت کے مراکز، پناہ گاہوں اور اسکولوں پر حملوں سے لے کر ان گھروں کی بمباری تک پھیلی ہوئی ہیں جن میں عام شہری موجود تھے۔ اسرائیل پر بین الاقوامی سطح پر ممنوعہ ہتھیار استعمال کرنے کے الزامات بھی ہیں، اور اس کی طرف سے عائد کردہ گھیراؤ نے غزہ میں قحط اور بھوک کے عالمگیر بحران کو جنم دیا ہے۔
غزہ میں ہونے والی یہ سفاکیاں — جو انسان کے وجود کی منظم تباہی ہیں — عالمی اجتماعی ضمیر میں ہمیشہ کے لیے نقش ہونی چاہییں۔
اسی دوران فلسطینیوں کو جبراً ’’الماواسی‘‘ جیسے علاقوں میں منتقل کرنا، جنہیں دھوکے سے ’’محفوظ زون‘‘ کہا گیا، بحران کو مزید بڑھا رہا ہے۔ ان علاقوں میں لاکھوں بے گھر افراد کو سنبھالنے کی کوئی صلاحیت موجود نہیں، اور اسرائیل انہی جگہوں پر گولہ باری جاری رکھے ہوئے ہے۔
انسانی حقوق اور بین الاقوامی قانون کے تناظر میں، اس نسل کشی نے ان ممالک کے دوہرے معیار کو بے نقاب کیا ہے جو ان اصولوں کی پاسداری کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن سیاسی و عسکری حمایت کے ذریعے اسرائیل کو اس کے جرائم جاری رکھنے کے قابل بناتے ہیں۔
دنیا بھر کے عوام اب قائم عالمی نظام پر اعتماد کھو رہے ہیں۔ مغربی ممالک میں عوامی تحریکیں اور کارکن اپنی حکومتوں کو پالیسی کی تبدیلی پر مجبور کر رہے ہیں۔ یہی وہ اہم عنصر ہے جس نے حالیہ دنوں میں فلسطینی ریاست کے باضابطہ اعترافات کی لہر کو جنم دیا۔
اسی دوران ہم ایسے بین الاقوامی اتحادوں کو ابھرتے دیکھ رہے ہیں جو روایتی عالمی نظام کو چیلنج کر رہے ہیں، اور ممکن ہے کہ یورپی دارالحکومتوں میں امریکہ و اسرائیل کے مکمل تابع رہنے کے بجائے ایک خودمختار سمت اختیار کرنے کا آغاز ہو۔ بالآخر یہ تبدیلی امریکی بالادستی کے دور کے خاتمے کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔
انسانی زبان
یہ ناگزیر ہے کہ اس نسل کشی کی یاد کو عالمی شعور اور ضمیر میں ہمیشہ کے لیے ثبت کیا جائے تاکہ ایسے مظالم دوبارہ نہ دہرائے جائیں — اور انصاف کے حصول کے لیے مسلسل دباؤ برقرار رکھا جائے۔
ہمیں ایسی دستاویزی فلموں اور فیچر موویز کی ضرورت ہے جو زندہ عینی شہادتوں کو امر کر دیں، اور ان ہولناک مناظر کو ایسی انسانی زبان میں بیان کریں جو دنیا بھر کے لوگوں کے دلوں تک پہنچے۔
ایسے میوزیم قائم کیے جائیں، غزہ کے اندر بھی اور باہر بھی، جو اسرائیل کے جرائم کی دستاویزات محفوظ کریں، تباہی کے مناظر پیش کریں، اور متاثرین کی کہانیاں سنائیں۔
اسرائیلی-فلسطینی تنازع پر تعلیمی مواد کو عالمی نصاب کا حصہ بنایا جانا چاہیے تاکہ آنے والی نسلوں میں ناانصافی کے خلاف جدوجہد کا شعور پیدا ہو۔
اقوامِ متحدہ کو چاہیے کہ غزہ کی نسل کشی کے لیے ایک عالمی یومِ یاد منانے کا اعلان کرے، جو دنیا بھر میں سیاسی و ثقافتی تقاریب کے ذریعے منایا جائے۔
غزہ کی نسل کشی کے آغاز کے دو سال گزر جانا محض وقت کا حساب نہیں ہے — بلکہ یہ انسانی یادداشت کو مزاحمت کا ایک عمل بنانے اور دنیا کے اخلاقی شعور کو زندہ رکھنے کی فوری پکار ہے۔
غزہ میں ہونے والے مظالم — جو انسانی وجود کی منظم تباہی کی علامت ہیں — کو عالمی اجتماعی ضمیر میں تاریخ کے سب سے سفاک ابواب میں سے ایک کے طور پر ہمیشہ کے لیے کندہ ہونا چاہیے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اسرائیلی جرائم کو جائز یا معمول کے مطابق پیش کرنے کی ہر کوشش کو ختم کیا جائے۔ ساتھ ہی یہ ضروری ہے کہ بین الاقوامی عدالتوں کی غیر مشروط حمایت کی جائے تاکہ انسانیت کے خلاف جرائم کو سیاسی استثنیٰ کے ذریعے تحفظ نہ مل سکے — اور اس طرح وہ اصول و معیارات برقرار رہیں جو دوسری جنگِ عظیم کے بعد عالمی امن و سلامتی کے تحفظ کے لیے قائم کیے گئے تھے۔
غزہ کی نسل کشی کے دو سال بعد، ہم انسانی تاریخ کے ایک فیصلہ کن موڑ پر کھڑے ہیں۔ یہ ہماری اخلاقی اور سیاسی ذمہ داری ہے کہ بین الاقوامی نظام کی از سرِ نو تشکیل کریں اور اس پر نوآبادیاتی طاقتوں کے ناجائز اثر و رسوخ کو ختم کریں۔
فلسطینی عوام کا آزادی اور قومی خودمختاری کا حق ناقابلِ تنسیخ، ناقابلِ مذاکرات اور تمام اقوام کے مساوی درجے کا حق ہے۔
غزہ کی جسمانی تعمیرِ نو کے علاوہ دنیا کو اس عہد پر کاربند رہنا چاہیے کہ اس نسل کشی کی یاد کبھی ماند نہ پڑے — یہ ایک سنجیدہ عہد ہو کہ آئندہ کسی بھی قوم یا آبادی پر ایسا ظلم دوبارہ نہ ہونے دیا جائے۔
امن کی راہ صرف اس وقت کھل سکتی ہے جب جامع انصاف کو یقینی بنایا جائے، قبضے کا خاتمہ کیا جائے، اور ایک آزاد فلسطینی ریاست قائم ہو۔
تب ہی دنیا یقین سے کہہ سکے گی کہ غزہ کی فریادیں رائیگاں نہیں گئیں، اور اس کے بے گناہ شہری محض اعداد و شمار نہیں بلکہ انسانیت کے ضمیر میں پیوست ایک تڑپتی چنگاری ہیں — انصاف کی تلاش میں۔