اسلام آباد(مشرق نامہ):عالمی بینک نے مالی سال 2025-26 کے لیے پاکستان کی حقیقی جی ڈی پی (مجموعی قومی پیداوار) کی شرحِ نمو کا تخمینہ صرف 2.6 فیصد لگایا ہے، جو حکومت کے اندازوں سے کہیں کم ہے۔ ادارے نے خبردار کیا کہ اگر ڈھانچہ جاتی اصلاحات نہ کی گئیں تو پاکستان کی معیشت طویل جمود اور کمزوری کا شکار رہے گی۔
عالمی بینک کی اکتوبر 2025 کی "مینااپ اکنامک اپ ڈیٹ” رپورٹ میں پاکستان کی معاشی صورتحال کو محتاط انداز میں پیش کیا گیا ہے، جو اسٹیٹ بینک اور وزارتِ خزانہ کے نسبتاً پرامید تخمینوں کے برعکس ہے۔
اسٹیٹ بینک نے اپنی ستمبر مانیٹری پالیسی میں کہا تھا کہ "مالی سال 26 کے لیے حقیقی شرحِ نمو 3.25 سے 4.25 فیصد کی نچلی سطح کے قریب رہے گی”، لیکن عالمی بینک کے مطابق مہنگائی کے دباؤ، موسمیاتی آفات، نجی سرمایہ کاری کی کمی اور محدود مالی گنجائش کے باعث معیشت کی بحالی سست رہے گی۔
رپورٹ کے مطابق پنجاب اور سندھ میں تباہ کن سیلابوں نے زرعی پیداوار کو تقریباً 10 فیصد تک کم کر دیا، جس سے غذائی تحفظ اور برآمدات دونوں کو شدید نقصان پہنچا۔ چاول، گندم، کپاس، مکئی اور گنے جیسی بڑی فصلیں متاثر ہوئیں، جبکہ آبپاشی کے نظام کو پہنچنے والے نقصانات نے دیہی معیشت کو کمزور کر دیا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ اگر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات برقرار رہے تو پاکستان میں رسد سے متعلق افراطِ زر (Supply-side inflation) بار بار سر اٹھاتا رہے گا، جس سے قوتِ خرید اور دیہی آمدنی مزید متاثر ہوگی۔
خارجی محاذ پر پاکستان کی تجارت بھی کمزور دکھائی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق امریکا کی جانب سے 2025 کے آغاز میں نئے ٹیرف اقدامات کے بعد پاکستان کی برآمدات میں 1.5 فیصد تک کمی متوقع ہے، جو خطے کے دیگر تیل درآمد کنندہ ممالک میں سب سے زیادہ ہے۔
جبکہ مراکش اور مصر جیسے ممالک سیاحت اور سرمایہ کاری میں اضافے سے بہتری کی جانب گامزن ہیں، پاکستان اب بھی کم قیمت ٹیکسٹائل اور زرعی مصنوعات تک محدود ہے۔ توانائی کے بحران اور تنوع کی کمی نے اعلیٰ قدر کی منڈیوں تک رسائی روکے رکھی ہے۔
عالمی بینک نے کہا کہ پاکستان کی قومی ٹیرف پالیسی 2025-2030 پانچ سال میں ٹیرف میں نصف کمی کا ارادہ رکھتی ہے، جو طویل مدت میں مسابقت میں بہتری لا سکتی ہے، لیکن اس کے ثمرات اس وقت تک ممکن نہیں جب تک لاجسٹکس، ٹیکس نظام اور توانائی کے نرخوں میں اصلاحات نہ ہوں۔
رپورٹ میں پاکستان کی سماجی حالت پر بھی تشویش ظاہر کی گئی ہے۔ 2018 سے 2023 کے دوران غربت کی شرح 16.5 فیصد سے بڑھ کر 46 فیصد تک پہنچ گئی، جبکہ اگر روزانہ 4.2 ڈالر کی حد لی جائے تو تقریباً 90 فیصد پاکستانی غربت میں زندگی گزار رہے ہیں۔
اس اضافے سے سماجی عدم مساوات میں شدت، تعلیم میں کمی، غذائی قلت اور غیر رسمی روزگار میں اضافہ ہوا ہے۔ مالی دباؤ کے باعث حکومت سماجی تحفظ کے پروگراموں کو وسعت دینے سے قاصر رہی ہے۔
رپورٹ میں خواتین کی کم شرکت کو بھی پاکستان کی معیشت کے لیے “کھویا ہوا موقع” قرار دیا گیا ہے۔ اگرچہ خواتین کی تعلیم میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، مگر خواتین کی لیبر فورس میں شمولیت صرف 21 فیصد ہے — جو دنیا میں سب سے کم شرحوں میں سے ایک ہے۔
عالمی بینک کے مطابق، خواتین کی شمولیت میں رکاوٹیں دور کر دی جائیں تو فی کس جی ڈی پی میں 20 سے 30 فیصد اضافہ ہو سکتا ہے۔ تاہم، سماجی پابندیاں، نقل و حرکت کے مسائل، چائلڈ کیئر کی کمی، اور دفاتر میں عدم تحفظ جیسے عوامل خواتین کی معاشی شمولیت کو محدود کر رہے ہیں۔
ادارہ تجویز دیتا ہے کہ محفوظ پبلک ٹرانسپورٹ، لچکدار اوقاتِ کار، ہراسانی کے خلاف قانونی تحفظات، اور سماجی آگاہی مہمات کے ذریعے خواتین کو مرکزی معیشت میں شامل کیا جائے۔
رپورٹ نے ماحولیاتی خطرات کو پاکستان کی معیشت کے لیے سب سے بڑا چیلنج قرار دیا ہے۔ 2022 اور 2025 کے سیلابوں نے اربوں ڈالر کے نقصانات پہنچائے، جس سے ترقیاتی منصوبوں کے لیے مختص فنڈز ریلیف اور بحالی میں منتقل کرنا پڑے۔
عالمی بینک نے خبردار کیا کہ اگر بڑے پیمانے پر موسمیاتی لچک (Climate resilience) میں سرمایہ کاری نہ کی گئی — مثلاً فلڈ مینجمنٹ، پائیدار زراعت اور قابلِ تجدید توانائی — تو طویل مدتی ترقی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔
دوسری جانب، قرضوں کی ادائیگی قومی آمدنی کا بڑا حصہ نگل رہی ہے، جبکہ بیرونی مالیاتی مدد آئی ایم ایف اور دوطرفہ قرضوں پر منحصر ہے، جس سے حکومتی مالی گنجائش محدود ہو چکی ہے۔