ہفتہ, اکتوبر 11, 2025
ہومنقطہ نظرٹرمپ کا 20 نکاتی "امن منصوبہ" دراصل فلسطینیوں کی سرنڈر کی پکار...

ٹرمپ کا 20 نکاتی "امن منصوبہ” دراصل فلسطینیوں کی سرنڈر کی پکار ہے
ٹ

محمد المصری

فلسطینیوں کو غیر مسلح کرنے اور غزہ پر بیرونی کنٹرول مسلط کرنے کے ساتھ ساتھ اسرائیل کو قبضہ برقرار رکھنے کی اجازت دے کر یہ امریکی۔اسرائیلی منصوبہ مستقبل میں مزید عدم استحکام کی ضمانت دیتا ہے۔

سوموار کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کے ہمراہ کھڑے ہوکر غزہ کی جنگ ختم کرنے کے لیے ایک 20 نکاتی منصوبہ پیش کیا۔

اس تجویز میں فوری جنگ بندی، سیکڑوں فلسطینی اور درجنوں اسرائیلی قیدیوں کی رہائی اور فلسطینیوں کے غزہ ہی میں رہنے کی ضمانت کا وعدہ شامل ہے۔

اگرچہ یہ نکات بظاہر مثبت دکھائی دیتے ہیں، مگر منصوبہ سراسر اسرائیل پر مرکوز ہے — یعنی ایک اسرائیلی منصوبہ جسے امریکی سفارت کاری کے لبادے میں لپیٹا گیا ہے — اور یہ امن کی حقیقی اپیل کے بجائے فلسطینیوں سے ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ معلوم ہوتا ہے۔

دو سال سے جاری اس نسل کشی میں اب تک 66 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں، لاکھوں بے گھر ہوگئے ہیں، اور اسرائیل نے غزہ کے اندر اپنی فوجی موجودگی کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ ایسے میں یہ منصوبہ متعدد مہلک خامیوں کے ساتھ بحران کو اور بڑھا دیتا ہے۔

سب سے نمایاں خامی یہ ہے کہ منصوبے کے تحت غزہ کی حکمرانی فلسطینیوں کو نہیں بلکہ ایسے بین الاقوامی عناصر کو دی جائے گی جو اسرائیل کے مفاد میں کام کریں گے۔ منصوبے میں فلسطینیوں سے ہتھیار ڈالنے کا تقاضا کیا گیا ہے جبکہ اسرائیل اپنی ناکہ بندی اور فوجی موجودگی برقرار رکھے گا۔ امداد اور حکمرانی کو بھی بیرونی اداروں کے سپرد کر دیا گیا ہے — یہ وہی فارمولہ ہے جو ماضی میں بدنام زمانہ "غزہ ہیومینیٹیرین فاؤنڈیشن” (GHF) کی شکل میں تباہ کن ثابت ہوچکا ہے۔

اسی دوران اسرائیل کو وسیع آزادی دی گئی ہے: اس کا انخلا غیر معینہ مدت کے لیے مؤخر ہے اور مبہم شرائط سے مشروط رکھا گیا ہے۔ اسرائیلی فوج غزہ کے اندر ایک بڑے "سیکیورٹی پرائمٹر” میں موجود رہے گی، جبکہ فلسطینی ریاست کے قیام کا امکان غیر معینہ مستقبل میں دھکیل دیا گیا ہے۔

مجموعی طور پر، منصوبے کی یہ شقیں "گریٹر اسرائیل” منصوبے اور فلسطینی مزاحمت کے تدریجی خاتمے کا خاکہ معلوم ہوتی ہیں۔ یہ اسرائیل کے لیے اپنی سرحدوں کو کم سے کم رکاوٹ کے ساتھ بڑھانے کی راہ ہموار کرتی ہیں، اس طرح ٹرمپ کا منصوبہ امن کے بجائے عدم استحکام کا فارمولا ہے۔

مہلک خامیاں

مہینوں سے غزہ کو "ریویرا” بنانے، اسے امریکی سرپرستی میں ایک سیاحتی مرکز کے طور پر ڈھالنے اور اس کی جائیدادوں کو نشانہ بنانے کی باتیں جاری تھیں، اس لیے اب حیرت نہیں کہ ٹرمپ کا تازہ منصوبہ فلسطینیوں کو حکمرانی، تعمیر نو یا انتظام میں کوئی کردار نہیں دیتا۔

اس کے بجائے اختیار اسرائیل کے ساتھ منسلک بین الاقوامی عناصر کے حوالے کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر، آرٹیکل 9 ایک بین الاقوامی "بورڈ آف پیس” کے قیام کی تجویز دیتا ہے جس کی سربراہی ٹرمپ اور سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر کریں گے، جبکہ آرٹیکل 15 ایک "انٹرنیشنل اسٹیبلائزیشن فورس” (ISF) کے قیام کا تقاضا کرتا ہے جس کا بنیادی مشن اسرائیلی سلامتی کو یقینی بنانا ہوگا۔

فلسطینی عناصر کو "72 گھنٹوں کے اندر” اقدامات کرنے کا پابند بنایا گیا ہے، جبکہ اسرائیل کو لامحدود نرمی دی گئی ہے اور اسے مکمل فوجی انخلا کی کوئی لازمی شرط نہیں دی گئی۔

منصوبہ فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان عدم توازن کو مزید مستحکم کرتا ہے۔ یہ غزہ کے مکمل غیر عسکری بنانے (آرٹیکلز 13 اور 15) اور سرنگوں و ہتھیاروں کے خاتمے (آرٹیکلز 6 اور 13) کا مطالبہ کرتا ہے، جبکہ اسرائیل کو اپنی فضائی، زمینی اور سمندری ناکہ بندی برقرار رکھنے اور غزہ میں فوجی دستے رکھنے کی اجازت دیتا ہے۔

آرٹیکل 3 میں صرف اتنا کہا گیا ہے کہ اسرائیلی فوج ایک سست "مرحلہ وار انخلا” کا منصوبہ بنائے گی، جو مبہم "معیار، سنگ میل اور اوقات کار” سے مشروط ہوگا۔ یہ نکات آرٹیکل 16 میں درج ہیں اور ان پر اسرائیلی فوج، ISF، ضامن ممالک اور امریکہ کے درمیان بات چیت ہوگی۔

اسرائیلی انخلا کے لیے کوئی ٹھوس ٹائم لائن نہ ہونا خاص طور پر قابل غور ہے۔ فلسطینی عناصر کو تو 72 گھنٹوں کے اندر حرکت میں آنا ہوگا، لیکن اسرائیل کو لامحدود وقت دیا گیا ہے اور اسے کبھی بھی مکمل انخلا پر مجبور نہیں کیا گیا۔

اسرائیلی میڈیا نے اس پہلو پر خوشی کا اظہار کیا ہے۔ ٹائمز آف اسرائیل نے لکھا کہ حتمی انخلا محض اتنا ہوگا کہ فوج کو غزہ کے اندر ایک بڑے "سیکیورٹی بفر زون” میں منتقل کیا جائے۔ نیتن یاہو نے منگل کو کہا کہ اسرائیل "غزہ کے بیشتر حصے” میں موجود رہے گا۔

سرنگوں کے خاتمے کی شق بھی اہم ہے، کیونکہ 2006 سے اسرائیلی ناکہ بندی کے بعد غزہ کی "سرنگی معیشت” ضروریات زندگی کے لیے ناگزیر ہوچکی ہے۔ اقوام متحدہ نے تسلیم کیا کہ 2009 تک "تقریباً تمام ممکنہ اشیاء” غزہ میں سرنگوں کے ذریعے لائی جاتی تھیں، جن میں "تعمیراتی سامان، مویشی، ایندھن، نقدی” اور دیگر اشیاء شامل تھیں۔

اگر یہ منصوبہ اسی صورت میں نافذ ہوتا ہے تو فلسطینی ایک محصور علاقے میں رہ جائیں گے جو خود کو کسی بھی اسرائیلی حملے اور قبضے سے بچانے کی صلاحیت سے محروم ہوگا۔

ایک اور بڑا مسئلہ منصوبے کی امداد سے متعلق شقوں میں ہے، جو کرائے کے اداروں جیسے GHF کو سرگرم رہنے کی اجازت دیتی ہیں۔

اگرچہ آرٹیکل 8 اقوام متحدہ کی ایجنسیوں اور ریڈ کریسنٹ کو امداد کی تقسیم دوبارہ شروع کرنے کی اجازت دیتا ہے، لیکن اسی وقت "دیگر بین الاقوامی اداروں” کو بھی اجازت دیتا ہے جو کسی فریق سے منسلک نہ ہوں۔ اقوام متحدہ نے GHF کو ایک "موت کا پھندا” قرار دیا ہے اور اسے سیکڑوں اموات اور ناقابل تلافی مصائب کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے، لیکن چونکہ یہ ادارہ تکنیکی طور پر ایک امریکی ادارہ ہے، اس لیے یہ سرگرم رہ سکتا ہے۔

آخر میں، منصوبہ فلسطینی اتھارٹی (PA) کو زندہ کرنے اور "اصلاحات” کا ہدف رکھتا ہے، جو ہمیشہ سے اسرائیل کی "ٹھیکیدار” اور معاون کے طور پر کام کرتی رہی ہے اور فلسطینی عوام میں شدید ناپسندیدہ ہے۔

آرٹیکل 9 میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ٹرمپ کا 2020 امن منصوبہ PA کی اصلاحات کے لیے نمونہ ہوگا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایسی اصلاحات کا مقصد صرف اسرائیلی سلامتی کی ضمانت ہوگا۔

حماس کو کونے میں دھکیلنا

شاید سب سے اہم بات یہ ہے کہ 20 نکاتی منصوبہ کن باتوں کو چھوڑ دیتا ہے۔ فلسطینی سیاسی کردار کو تقریباً نظرانداز کیا گیا ہے، نہ اسرائیلی ناکہ بندی کا ذکر ہے، نہ ہی مغربی کنارے پر غیر قانونی اور تیزی سے پھیلتے ہوئے اسرائیلی قبضے کا۔

آرٹیکل 19 مستقبل میں فلسطینی ریاست کے امکان کا ذکر کرتا ہے لیکن مبہم الفاظ استعمال کرتا ہے اور کوئی ٹائم لائن نہیں دیتا۔

نیتن یاہو، جو طویل عرصے سے فلسطینی ریاست کے قیام کو ناکام بنانے کی اپنی منظم کوششوں پر فخر کرتے آئے ہیں، نے پیر کو دوبارہ کہا کہ اسرائیل فلسطینی ریاست کے قیام کی "زبردستی مزاحمت” جاری رکھے گا۔

اس صورتحال میں حماس کہاں کھڑی ہے، جو مبینہ طور پر منصوبے پر غور کر رہی ہے؟

آخرکار، حماس ٹرمپ کی تجویز قبول کرنے کا فیصلہ کرسکتی ہے — نہ اس لیے کہ وہ اس کی واضح خامیوں سے بے خبر ہے، اور نہ اس لیے کہ اسے لگتا ہے کہ یہ فلسطینی مقصد کو آگے بڑھاتا ہے، بلکہ اس لیے کہ وہ یہ سمجھ سکتی ہے کہ اس کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں بچا۔

حماس کم از کم تین سمتوں سے دباؤ میں ہے۔

سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ فلسطینی عوام کے دباؤ میں ہے، جو دو سالہ مسلسل بمباری، جبری بے دخلی اور دانستہ بھوک سے نجات کے لیے بے قرار ہیں۔ اسرائیل نے دسیوں ہزار لوگوں کو قتل کیا ہے، جن میں اکثریت خواتین اور بچے ہیں، اور کئی کو معذور کردیا ہے۔ گزشتہ ماہ یورپی یونین اور دیگر مغربی طاقتوں نے کہا کہ غزہ میں مصائب "ناقابل تصور” سطح تک پہنچ چکے ہیں۔

فلسطینی عوام، جو اب دنیا بھر میں بے مثال حمایت سے لطف اندوز ہورہے ہیں، کو ضرورت ہے کہ امریکہ قانون کی بالادستی قائم کرے، اسرائیل کو غزہ سے نکلنے پر مجبور کرے، ناکہ بندی ختم کرے، مغربی کنارے پر قبضہ ختم کرے اور حقیقی خود ارادیت کی اجازت دے۔

یہی وہ منصوبہ ہوگا جسے منانے کے قابل کہا جاسکتا ہے۔

مقبول مضامین

مقبول مضامین