تحریر: عباس عراقچی (ایرانی وزیر خارجہ)
صدر مسعود پزشکیان کے دورۂ پاکستان سے دونوں ممالک کے درمیان تہذیبی، سیاسی، معاشی اور اسٹریٹجک ہم آہنگی کا ایک نیا دور شروع ہو رہا ہے جس کا مقصد مشترکہ ترقی، علاقائی استحکام اور عالمی انصاف کا فروغ ہے۔
(مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک): ایران کی خارجہ پالیسی کا بنیادی اصول اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ مضبوط، مستحکم اور باہمی فائدے پر مبنی تعلقات قائم کرنا ہے۔ اسی تناظر میں پاکستان کے ساتھ ایران کا تعلق خاص اہمیت رکھتا ہے۔ یہ صرف جغرافیائی بنیاد پر نہیں، بلکہ صدیوں پر محیط مشترکہ تہذیبی تجربات، مذہبی ہم آہنگی، ثقافتی رشتہ داری اور یکساں اسٹریٹجک مفادات پر مبنی ہے۔ ایشیا کے اس اہم سنگم پر واقع دو خودمختار ممالک کی حیثیت سے ایران اور پاکستان ایک دیرپا شراکت سے بہت کچھ حاصل کرسکتے ہیں اور اپنے خطے کے مستقبل کو بہت کچھ دے بھی سکتے ہیں۔
صدر مسعود پزشکیان کا دورۂ پاکستان اسی بڑھتی ہوئی رفتار کا مظہر ہے۔ یہ اس اعلی سطحی سفارتی سرگرمی کا تسلسل ہے جس میں شہید صدر ابراہیم رئیسی کا اسلام آباد کا تاریخی دورہ اور وزیر اعظم شہباز شریف کا تہران کا جوابی دورہ شامل ہیں۔ یہ تبادلے اور دونوں جانب کے سینئر حکام کے درمیان مسلسل سفارتی مشاورت اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ تعلقات صرف رسمی نوعیت کے نہیں، بلکہ ایک سوچے سمجھے اسٹریٹجک فیصلے کے تحت، علاقائی اہمیت کے حامل تعلقات میں تبدیل ہو رہے ہیں۔
ایران اور پاکستان کے درمیان 900 کلومیٹر طویل سرحد صرف دو ریاستوں کو جدا کرنے والی لائن نہیں، بلکہ وہ پل ہے جو صدیوں سے اقوام و تہذیبوں کو جوڑتا آیا ہے۔ اس سرحد سے صرف تجارت ہی نہیں بلکہ خیالات، زبانیں، شاعری اور مذاہب کا تبادلہ ہوا، جنہوں نے آج تک ہماری معاشرتوں کو زندگی بخشی ہے۔ نوروز کی تقریبات سے لے کر مشترکہ صوفیانہ روایتوں تک، ہماری تہذیبی و روحانی قربت نے ایک ایسی دائمی مانوسیت اور اعتماد کو جنم دیا ہے جو آج ہماری سیاسی ہم آہنگی کی بنیاد ہے۔
یہ رشتہ مذہبی ہم آہنگی سے مزید مضبوط ہوتا ہے۔ دو فخر سے سر بلند مسلم اقوام کے طور پر ایران اور پاکستان اسلامی اصولوں یعنی عدل، شفقت اور یکجہتی میں راسخ ہیں۔ یہ اقدار صرف داخلی وحدت کا ذریعہ نہیں بلکہ ہماری بین الاقوامی پالیسی کے رہنما اصول بھی ہیں۔ یہی اقدار ہمیں مجبور کرتی ہیں کہ ہم فلسطینی جدوجہد جیسے مقاصد میں یک زبان ہوں، ظلم کے خلاف آواز اٹھائیں، اور تعاون و باہمی احترام کے ذریعے امن کو فروغ دیں۔
ہمارے اقتصادی اشتراکات وسیع امکانات کے حامل ہیں۔ پاکستان کی زرعی صلاحیت اور ایران کے وافر توانائی وسائل، اور دونوں ممالک کی رابطہ سازی میں دلچسپی، باہمی انضمام کا قدرتی ذریعہ فراہم کرتے ہیں۔ شعبہ جاتی ہم آہنگی کے علاوہ، دونوں ممالک کھلے، منصفانہ اور باہم مربوط علاقائی معیشت کی تشکیل میں بھی طویل المدت دلچسپی رکھتے ہیں۔ اگر دونوں ممالک اپنی وژن کو ہم آہنگ کریں، تو وہ ایک پائیدار اقتصادی شراکت قائم کرسکتے ہیں جو باہمی مزاحمت، ٹیکنالوجی میں ترقی اور ہمہ گیر ترقی پر مبنی ہو۔
ایسی شراکت نہ صرف مقامی سطح پر کمیونٹی کو بااختیار بناسکتی ہے بلکہ روزگار کے مواقع پیدا کرکے پورے خطے میں ترقی کا نیا ماڈل متعارف کراسکتی ہے جو پائیدار، مشترکہ اور باہمی فائدے پر مبنی ہو۔
ایسے وقت میں جب سرحد پار خطرات ہماری مشترکہ سلامتی کو مسلسل خطرے میں ڈال رہے ہیں، ایران اور پاکستان سرحدی علاقوں میں سرگرم دہشتگرد نیٹ ورکس کے خلاف چوکنا ہیں۔ انسداد دہشتگردی میں ہم آہنگی کوئی اختیار نہیں بلکہ ایک ناگزیر ضرورت ہے۔ مقامی خطرات سے ہٹ کر، دونوں ممالک کو ایسے وسیع تر تزویراتی خدشات کا سامنا ہے جو خطے میں جارحانہ رویّوں سے جنم لیتے ہیں۔ غزہ میں اسرائیل کی جاری نسل کشی، شام و لبنان پر اس کا قبضہ، اور حالیہ ایرانی سرزمین پر بلاجواز حملے، ان جارح قوتوں کے خلاف اجتماعی ردعمل کی فوری ضرورت کو مزید بڑھاتے ہیں جو عدم استحکام اور تسلط سے فائدہ اٹھاتی ہیں۔ ذمے دار ریاستیں خاموشی کی متحمل نہیں ہو سکتیں۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم ہم آہنگی کو مضبوط کریں، سیکیورٹی کے میدان میں تعاون کو گہرا کریں، اور عالمی فورمز پر ایک واضح اور متحد موقف اختیار کریں۔
اس تناظر میں، ایران حکومت پاکستان کی اصولی اور غیر مبہم پوزیشن کی دل سے قدر کرتا ہے، جس نے جون 2025 میں ایرانی سرزمین پر اسرائیل اور امریکہ کی فوجی جارحیت کی دوٹوک مذمت کی۔ ایسے وقت میں جب مغربی طاقتیں تاریخ کے غلط رخ پر کھڑی ہوئیں، پاکستان نے بین الاقوامی قانون، علاقائی استحکام اور اپنے ہمسایہ کے ساتھ یکجہتی کا علم بلند رکھا۔
اتنی ہی قابل قدر وہ پرخلوص حمایت تھی جو پاکستانی عوام نے دل کی گہرائیوں سے ظاہر کی۔ ان کے جذبۂ ہمدردی اور یکجہتی کی خودجوش لہریں ایرانی معاشرے میں گہرائی تک محسوس کی گئیں۔ ایرانی عوام نے دیکھا کہ ان کے پاکستانی بھائی اور بہنیں ان کے حق میں آواز بلند کر رہے ہیں۔ ہمدردی اور اتحاد کا یہ مظاہرہ کبھی فراموش نہیں کیا جائے گا۔ اس نے ہمارے رشتے کی گہرائی اور ان قدروں کی طاقت کو دوبارہ ثابت کیا جو ہم دونوں اقوام کو باہم جوڑے ہوئے ہیں۔
ایران اور پاکستان کے درمیان کثیرالجہتی اداروں میں قریبی تعاون کی ایک شاندار تاریخ بھی ہے۔ اقوام متحدہ میں، ہم نے ہمیشہ فلسطینی عوام کے حقوق کے دفاع اور پائیدار ترقی کے اہداف کے فروغ کے لیے مل کر کام کیا ہے۔
اسلامی تعاون تنظیم کے دائرے میں، ہم مسلم امہ کو درپیش فوری چیلنجز سے نمٹنے کے لیے مشترکہ مؤقف اپناتے ہیں۔ شنگھائی تعاون تنظیم، اقتصادی تعاون تنظیم (ECO) اور ڈی-8 جیسے اداروں میں فعال رکن ہونے کے ناطے، ہم رابطہ سازی، اقتصادی انضمام اور علاقائی امن کے مشترکہ مقاصد کو آگے بڑھاتے ہیں۔ ہماری مربوط سفارتکاری عالمی سطح پر ہماری آواز کو تقویت دیتی ہے اور بین الاقوامی مکالمے کو انصاف، برابری اور کثیرالجہتی کی طرف موڑنے میں مدد دیتی ہے۔ یہ تعاون صرف بحران کو کنٹرول کرنے تک محدود نہیں، بلکہ ایک وسیع تر اسٹریٹجک ہم آہنگی کی عکاسی بھی کرتا ہے۔ ایران اور پاکستان دونوں خودمختاری، عدم مداخلت اور تنازعات کے پرامن حل کے اصولوں کو مقدم رکھتے ہیں۔ دونوں ایک ایسے علاقائی نظم کے لیے پرعزم ہیں جس میں مسلم اقوام اپنے مقدر کی خود تعیین کریں اور اجتماعی خوشحالی کے لیے تعاون کریں۔
ہماری شراکت داری سہ فریقی اور وسیع تر علاقائی تناظر میں بھی امکانات سے بھرپور ہے۔ افغانستان بطور مشترکہ ہمسایہ رکھنے کے ناتے، دونوں ممالک وہاں استحکام، اور جنگ و انتہا پسندی کے بجائے امن و ترقی کے فروغ میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اپنی اقتصادی حکمت عملیوں کو مربوط کرکے اور جغرافیائی اسٹریٹجک پوزیشن کو استعمال میں لاکر، ایران اور پاکستان خطے کو مقابلہ آرائی کے بجائے تعاون کا مرکز بنانے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
تجارت اور ٹرانزٹ کی فعال راہداریوں کی تشکیل، جو باہمی فائدے پر مبنی ہو، ہمارے عوام کو حقیقی فوائد فراہم کرتی ہے اور ایک جدید، ترقی پسند علاقائی ڈھانچے کی تشکیل میں مفید ہوسکتی ہے۔
آگے کا راستہ اتحاد، مقصد کی وضاحت، اور مشترکہ امنگوں کو پائیدار اداروں اور عملی کامیابیوں میں بدلنے کے عزم کا تقاضا کرتا ہے۔ سفارتی مکالمے کو بڑھانا، اقتصادی روابط کو وسعت دینا، تعلیمی و ثقافتی تبادلے کو فروغ دینا ہمارے تعلقات میں گہرائی اور پائیداری پیدا کرے گا۔
صدر مسعود پزشکیان کا دورہ نہ صرف باہمی عہد کی تجدید کا موقع ہے بلکہ امکانات کو نئے سرے سے تصور کرنے کا لمحہ بھی ہے۔ اس عمل میں ہم علامہ اقبال سے الہام لے سکتے ہیں جو پاکستان کے قومی شاعر اور فارسی تفکر کے بڑے مداح تھے۔ جنہوں نے ہمیں یاد دلایا کہ قوموں کی روح عارضی سیاسی چکروں میں نہیں بلکہ پائیدار اخلاقی و روحانی نظریات میں تشکیل پاتی ہے۔ ان کے الفاظ آج بھی گونجتے ہیں:
"قومیں شاعروں کے دل میں جنم لیتی ہیں، اور سیاستدانوں کے ہاتھوں پنپتی یا فنا ہوتی ہیں۔”
ہم پر لازم ہے کہ ایران اور پاکستان نہ صرف ترقی کریں بلکہ ایک پرامن، متنوع اور مربوط علاقائی مستقبل کے معمار کی حیثیت سے یکجا ہوکر ابھریں۔ ہماری دوستی صرف ماضی کی یادگار نہیں بلکہ مستقبل میں سرمایہ کاری ہے۔ اتحاد میں طاقت ہے۔ تعاون سے مقصد پورا ہوتا ہے۔ اور باہمی احترام میں ہمیں پائیدار امن اور مشترکہ ترقی کی بنیاد تشکیل پاتی ہے۔