رپورٹ: گریگری برو (فنانشل ٹائمز)
مانیٹرنگ ڈیسک (مشرق نامہ)– فنانشل ٹائمز میں شائع ہونے والے ایک تجزیے میں گریگری برو، جو یوریشیا گروپ کے انرجی، کلائمیٹ اور ریسورس ڈیپارٹمنٹ سے وابستہ ہیں اور توانائی کی جیوپولیٹکس کے ماہر سمجھے جاتے ہیں، نے اس نکتے پر روشنی ڈالی ہے کہ جدید دور میں تیل پر اقتصادی پابندیاں اپنی تاثیر کھو چکی ہیں۔
اگرچہ ایران اور روس کو بالترتیب 1.2 کھرب اور 750 ارب ڈالر کے معاشی نقصانات پہنچے، لیکن ان کی خارجہ یا اندرونی پالیسیوں میں کوئی بنیادی تبدیلی واقع نہ ہوئی۔ اس کے برعکس، ان پابندیوں نے چین جیسے جغرافیائی سیاسی کھلاڑیوں کو فائدہ پہنچایا ہے اور امریکہ کے اصل سیاسی اہداف حاصل نہیں ہو سکے۔
پابندیوں کا مقصد اور ناکامی
ابتدائی طور پر تیل پر پابندیاں اس لیے لگائی جاتی تھیں تاکہ ممالک کو معاشی دباؤ کے تحت اپنی پالیسیوں میں تبدیلی پر مجبور کیا جا سکے۔ لیکن برو کے مطابق، ایران اور روس کے تجربات نے اس مفروضے کو باطل کر دیا ہے۔
2012 سے 2015 کے دوران ایران کی جی ڈی پی میں سالانہ 16 فیصد کمی آئی، اور گزشتہ 12 برسوں میں ہر شہری کو اوسطاً 14 ہزار ڈالر کی آمدنی سے محروم ہونا پڑا۔ روس کی معیشت پابندیوں کے بغیر 20 فیصد زیادہ بڑی ہو سکتی تھی، اور اس کے 70 فیصد بینکنگ اثاثے اب پابندیوں کی زد میں ہیں۔
باوجود ان سختیوں کے، ایران اور روس نے اپنی خودمختاری اور اسٹریٹجک ترجیحات سے پیچھے ہٹنے سے انکار کیا۔ ایران نے جوہری معاہدے پر امریکی مطالبات تسلیم نہیں کیے اور روس نے یوکرین میں جنگ جاری رکھی۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ معاشی پابندیوں اور سیاسی اطاعت پذیری کے درمیان تعلق کمزور ہو چکا ہے۔
ایران کی برآمدات کا نیا راستہ: چین
2015 کے جوہری معاہدے سے امریکی علیحدگی کے بعد ایران کی تیل برآمدات متاثر ہوئیں، خاص طور پر کووِڈ-19 کے دوران۔ تاہم، مارکیٹ مکمل طور پر غائب نہیں ہوئی بلکہ نئے راستوں میں ڈھل گئی۔
گریگری برو لکھتے ہیں کہ چین نے ایران سے یومیہ تقریباً 20 لاکھ بیرل خام تیل درآمد کرنا شروع کر دیا، جو اس کی کل درآمدات کا 14.6 فیصد تھا۔ اس عمل نے واضح کیا کہ عالمی تیل منڈی پابندیوں کے مطابق نہیں بلکہ ان کے خلاف ارتقا پذیر ہو گئی ہے۔
چینی "ٹی پاٹ” ریفائنریاں، جو مغربی مالیاتی نظام سے باہر کام کرتی ہیں، اس عمل میں کلیدی خریدار بن گئیں۔ بیجنگ نے ایران سے اپنی تجارت کو مبہم کسٹمز رپورٹس کے ذریعے چھپایا۔ ایران کی معیشت، جسے زراعت، صنعت اور خدمات کے شعبوں میں بالترتیب 150، 450 اور 600 ارب ڈالر کا نقصان ہوا، اب ایک ایسی معیشت میں ڈھل چکی ہے جو پابندیوں کے خلاف خود کو محفوظ بنا چکی ہے۔
روس: پابندیوں کے باوجود معاشی لچک
2022 میں روس پر امریکی قیادت میں مالیاتی پابندیاں لگائی گئیں، جن میں جی-7 کی قیمت کی حد بھی شامل تھی، تاکہ اس کی آمدن کم کی جا سکے لیکن برآمدات متاثر نہ ہوں۔
برو کے مطابق ان پابندیوں سے ماسکو کو 500 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا، جن میں 170 ارب ڈالر براہِ راست مالیاتی نقصانات اور 400 ارب ڈالر توانائی کے شعبے میں نقصان شامل ہے۔ 2022 میں روس کی جی ڈی پی میں 2.1 فیصد کمی آئی، مگر 2023 اور 2024 میں یہ بالترتیب 3.6 فیصد اور 4.1 فیصد بڑھ گئی۔ یہ اضافہ بنیادی طور پر جنگی اخراجات کا نتیجہ تھا نہ کہ حقیقی معاشی بحالی۔
اس دوران بھارت اور چین نے روسی تیل رعایتی نرخوں پر خرید کر اسے یورپی منڈیوں میں دوبارہ فروخت کر کے منافع کمایا۔
سب سے بڑا فائدہ: چین کا اسٹریٹجک عروج
برو کے مطابق تیل پر پابندیوں کا اصل فائدہ چین کو ہوا۔ اس نے پابندی زدہ تیل سستے داموں حاصل کر کے خود کو عالمی توانائی کے نقشے میں مرکزی حیثیت دلوائی۔ اب ایران اور روس دونوں توانائی کے لیے چین پر انحصار کرتے ہیں، جس سے بیجنگ کو سستی توانائی تک رسائی کے ساتھ ساتھ سیاسی اثر و رسوخ بھی حاصل ہو گیا ہے۔
امریکی خارجہ پالیسی پر نظرثانی کی ضرورت
گریگری برو تجویز دیتے ہیں کہ امریکہ کو اپنی حکمتِ عملی میں تبدیلی لانی چاہیے۔ وہ کہتے ہیں کہ مخصوص اداروں پر ہدفی پابندیاں اب بھی مؤثر ہو سکتی ہیں، لیکن وسیع پیمانے کی پابندیوں نے توقعات کے برخلاف نتائج دیے ہیں۔
وہ چین پر مکمل پابندی لگانے کے خلاف خبردار کرتے ہیں کیونکہ چین دنیا کا سب سے بڑا تیل درآمد کنندہ ہے۔ چین کی تجارت کو نشانہ بنانے سے امریکی توانائی کی منڈی غیر مستحکم ہو سکتی ہے اور مقامی امریکی پیداوار متاثر ہو سکتی ہے۔ اس کے بجائے وہ بتدریج تجارتی الگاؤ (decoupling) کی تجویز دیتے ہیں، جس میں ٹیرف اور برآمدی کنٹرولز کو اتحادیوں کے ساتھ مل کر استعمال کیا جائے۔
برو اختتامیہ میں لکھتے ہیں کہ پابندیاں تیل کی منڈیوں کو دبانے میں ناکام رہیں بلکہ انہیں نئی سمت دے دی۔ ایران اور روس آج بھی بڑے پیمانے پر تیل برآمد کر رہے ہیں، خاص طور پر چین کی طرف۔ اس طرح عالمی توانائی کا نقشہ بدل چکا ہے اور معاشی دباؤ کے روایتی ہتھیار اب کند ہو چکے ہیں۔