پیر, جولائی 7, 2025
ہومبین الاقوامیUSAID کے ذریعے سوڈان میں خفیہ سنسرشپ کا انکشاف

USAID کے ذریعے سوڈان میں خفیہ سنسرشپ کا انکشاف
U

مانیٹرنگ ڈیسک (مشرق نامہ)– افشا شدہ دستاویزات سے انکشاف ہوا ہے کہ امریکی امدادی ادارہ USAID نے "ویلنٹ پراجیکٹس” نامی مشتبہ کمپنی کو خفیہ طور پر اس مقصد کے لیے مالی معاونت فراہم کی کہ وہ سوڈان اور دیگر ممالک میں امریکہ نواز حکومتوں پر تنقید کرنے والوں کو سنسر کرے اور مغربی حمایت یافتہ بیانیے کو فروغ دے۔ واشنگٹن کی سرپرستی میں اگست 2019 میں سوڈان میں قائم کی گئی عبوری حکومت کو عوامی مخالفت کے باوجود مستحکم رکھنے کے لیے یہ مہم چلائی گئی۔ ان دستاویزات سے یہ بھی عندیہ ملتا ہے کہ سوڈان واحد ملک نہیں تھا جہاں ویلنٹ کو مغربی مداخلت اور عدم استحکام کے لیے آلہ کار بنایا گیا۔

USAID کی اب حذف شدہ ویب انٹری میں اپریل 2019 میں سوڈانی صدر عمر البشیر کی برطرفی کو امریکی مفادات کے فروغ کے لیے ایک "تاریخی موقع” قرار دیا گیا تھا۔ اس ادارے کے ‘آفس آف ٹرانزیشن انیشیئیٹوز’ (OTI) نے سوڈان کی نئی عبوری حکومت کے ساتھ قریبی تعاون کیا۔ اس میں ریاستی سطح پر کئی میڈیا دفاتر کا قیام اور ان کا انتظام شامل تھا جن کا مقصد پروپیگنڈا پھیلانا اور "غلط اور گمراہ کن معلومات” کا مقابلہ کرنا تھا۔

افشا شدہ معلومات کے مطابق OTI نے ویلنٹ کو "ڈس انفارمیشن” کے انسداد اور مواصلاتی تعاون کے لیے دس لاکھ ڈالر سے زائد کی رقم ادا کی، جو کمپنی کے سرکاری مالیاتی گوشواروں میں ظاہر نہیں کی گئی۔ البتہ جون 2021 میں میٹا (فیس بک کی پیرنٹ کمپنی) کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ ویلنٹ کی فراہم کردہ معلومات کی بنیاد پر 53 فیس بک اکاؤنٹس، 51 صفحات، تین گروپس، اور 18 انسٹاگرام اکاؤنٹس کو ہٹا دیا گیا۔

اکتوبر 2021 میں ویلنٹ کے سربراہ امیل خان نے رائٹرز کو بتایا کہ یہ "جعلی” نیٹ ورک دراصل فیس بک کے حذف کردہ نیٹ ورک سے تین گنا بڑا تھا، جس کے 60 لاکھ سے زائد فالوورز تھے۔ تاہم جن پیجز کو ویلنٹ نے "غیر مصدقہ” قرار دیا، ان کے منتظمین نے ان الزامات کی سختی سے تردید کی اور کہا کہ ان پر لگنے والے الزامات کی اصل وجہ عبوری حکومت کی ناکام پالیسیوں پر تنقید تھی۔

اسی ماہ OTI کی سرپرستی میں قائم سوڈانی حکومت کا خاتمہ ہوا، جو دو سال کے عرصے میں کرپشن، میڈیا پر پابندی، بغیر مقدمہ گرفتاریوں اور مخالفین پر بدترین تشدد کی شہرت حاصل کر چکی تھی۔ ان حالات میں ویلنٹ نے سوشل میڈیا پر حکومتی تنقید کو دبا کر امریکہ کی پسندیدہ حکومت کی حمایت کو یقینی بنانے کی بھرپور کوشش کی۔

‘ماپے جانے والے اثرات’

بظاہر ویلنٹ پراجیکٹس ایک جمہوری اور مثبت تشخص کی حامل کمپنی ہے، جس کے ماہرین کو مین اسٹریم میڈیا میں ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلق "ڈس انفارمیشن” جیسے موضوعات پر حوالہ دیا جاتا ہے۔ لیکن اس کے بانی امیل خان، شام میں سی آئی اے اور ایم آئی 6 کے حمایت یافتہ عسکری گروہوں کے لیے پروپیگنڈا مہمات چلا چکے ہیں۔

یہی پس منظر انہیں یوکرین جنگ میں برطانوی وزارت دفاع کے قائم کردہ خفیہ سیل "پروجیکٹ الکیمی” کے لیے موزوں بنا گیا۔ الکیمی نے خان سے رابطہ کیا تاکہ وہ ان کی "انفارمیشن آپریشنز” کی قیادت کریں۔ خان نے بتایا کہ ویلنٹ پہلے ہی کیمونکس انٹرنیشنل کے ساتھ مل کر یوکرین کے لیے برطانوی حمایت یافتہ فنڈ ‘پارٹنرشپ فنڈ فار اے ریزیلینٹ یوکرین’ (PFRU) پر کام کر رہا ہے۔

خان نے الکیمی کو بتایا کہ ویلنٹ ایسے سامعین کی نشاندہی کرتا ہے جو روسی بیانیے سے متاثر ہو سکتے ہیں اور انہیں متبادل معلومات فراہم کر کے یوکرین کی پالیسی کے حق میں رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس منصوبے میں روس اور دیگر اہم ریاستوں جیسے بھارت اور ترکی کے عوام تک رسائی کے لیے سوشل میڈیا، نیوز آؤٹ لیٹس اور دیگر پلیٹ فارمز کو استعمال کیا جانا شامل تھا۔

پروجیکٹ اوریلیئس اور شام میں خفیہ مہم

ویلنٹ کے سابق منصوبے "پروجیکٹ اوریلیئس” میں روس کی شام میں فوجی مداخلت کو غیر مؤثر اور مہنگا ثابت کرنے کے لیے میڈیا بیانیہ تیار کیا گیا۔ برطانوی انٹیلیجنس کی مدد سے شام میں موجود مخالف میڈیا کو استعمال کر کے روسی عوام کو اپنی حکومت کے خلاف معلومات فراہم کی گئیں تاکہ اندرونی خلفشار کو بڑھایا جا سکے۔

اس منصوبے میں یوکرین میں موجود روسی اپوزیشن کارکنوں، سماجی شخصیات، اور سوشل میڈیا نیٹ ورکس کو بھی شامل کیا گیا جو روسی زبان میں مواد تیار کرتے اور پھیلاتے تھے۔ فنڈنگ مبینہ طور پر شامی میڈیا گروپ کے ذریعے ایک روسی ادارے کو منتقل کی جاتی تھی۔

‘خاص طور پر نازک لمحہ’ — یوکرین میں میڈیا پر تحقیق

ایک اور افشا شدہ فائل سے انکشاف ہوتا ہے کہ ویلنٹ کو تھامسن رائٹرز فاؤنڈیشن نے یوکرین میں "آزاد میڈیا” پر عوام کے اعتماد کا تجزیہ کرنے کا کام سونپا۔ اس تحقیق میں 188 میڈیا اداروں کا تجزیہ کیا گیا۔ چار اقسام کے سامعین کی نشاندہی کی گئی: "قوم پرست بزرگ خواتین”، "ٹیکنالوجی کے ماہر پیشہ ور افراد”، "روس نواز افراد”، اور "یوکرینی پراؤڈ بوائز” (جو ایک انتہا پسند امریکی گروہ سے ماخوذ اصطلاح ہے)۔

تحقیق سے معلوم ہوا کہ یوکرین میں سب سے زیادہ بااعتماد ذرائع ابلاغ "سیلبریٹی بلاگرز” ہیں، کیونکہ بڑے میڈیا ادارے عوام کی نظر میں سرمایہ داروں کے ایجنڈے کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ویلنٹ نے مشورہ دیا کہ نئے میڈیا ادارے حقیقی شخصیات کے گرد تشکیل دیے جائیں اور روسی ثقافت کی قدر کرتے ہوئے کریملن کی پالیسیوں پر تنقید کریں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ رائٹرز فاؤنڈیشن نے ماضی میں مصر میں بھی برطانوی انٹیلیجنس کی مدد سے "آسوات مصریہ” نامی میڈیا آؤٹ لیٹ قائم کیا، جو بعد ازاں 2013 کی فوجی بغاوت کا مرکز بن گیا۔ افشا شدہ فائلوں سے پتا چلتا ہے کہ اسی ماڈل کو 2019 کے یوکرینی انتخابات سے قبل دہرانے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔

مارچ 2021 میں صدر زیلنسکی نے کریمیا اور ڈونباس کی دوبارہ قبضے کے لیے ایک نئی حکمت عملی جاری کی۔ اس کے فوراً بعد یوکرینی افواج مشرقی اور جنوبی سرحدوں پر جمع ہو گئیں، جو بعد ازاں 2022 کی جنگ کی بنیاد بنی۔ ایسے وقت میں برطانوی اداروں کی جانب سے "آزاد میڈیا” کے عنوان سے اثراندازی کے منصوبے مزید شکوک کو جنم دیتے ہیں۔

مقبول مضامین

مقبول مضامین